Maktaba Wahhabi

198 - 280
ہیں ۔اس لیے کہ انسان نماز میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع وخضوع اختیار کیے؛ اس کی عظمت کو پیش نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو دنیا اس پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ اور وہ دیگر امور ِ حیات میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہ مشروع کیا کہ اس حالت میں جب کہ انسان کا ایمان بلندیوں پر ہوتا ہے ؛کچھ اذکار بجا لائے جائیں جو ان احوال کے ساتھ مناسب ہوں ۔اور اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان اذکار میں نماز میں شیطانی وسوسوں اور دیگر خیالات کی وجہ سے ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ ہے۔ دوسر ی احادیث کی طرح یہ حدیث بھی بخشش، اورصغیرہ گناہوں کی مغفرت کی بشارت لیے ہوئے ہے۔ ایسے صغیرہ گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو۔اس حدیث میں بشارت ہے کہ جوکوئی یہ اذکار بجالائے گا اللہ تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہ معاف کردیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔ علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے لکھا ہے کہ ان اذکار کی فضیلت پانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں زبان سے اس طرح بول کر ادا کیا جائے کہ انسان خود انہیں سن سکے۔اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ :اس کے لیے زبان سے بولنا ہی کافی ہے اگرچہ وہ خود نہ بھی سن سکے۔ لیکن اکثر علماء کرام پہلے قول پر ہیں ۔ ایسے ہی ان اذکار کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ یہ نماز کے فوری بعد ہوں ۔ہاں اگر کبھی انسان فوری طور پر کسی کام میں مشغول ہوجائے اور یہ نیت کرلے کہ جیسے ہی وہ اس کام سے فارغ ہوگا ان اذکار کوبجائے لائے گا؛ لیکن اس کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ یہ فاصلہ زیادہ نہ ہو۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’احادیث مبارکہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان مذکورہ بالااذکار کا اہتمام نماز کے فوری بعد کیاجائے۔اگر انسان کسی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے مشغول ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔جیسا کہ احادیث میں نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے کے بارے میں آیاہے۔ اس طرح کی معمولی تاخیر سے کوئی حرج نہیں۔‘‘[1]
Flag Counter