Maktaba Wahhabi

222 - 280
بھی ایسے ہی کیا تھا جیسے میں نے کیا تھا۔‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنسے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے رب کو اپنے بندے کا یہ کہنا بہت پسند ہے کہ’’ اے رب مجھے معاف کردے۔‘‘ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اچھی لگتی ہے اور اس پر خوش ہوتے ہیں ۔‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوتے ہیں ،اور ثواب عطا کرتے ہیں ۔اس کے لیے مجازاً تعجب کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ پر عجب کا اطلاق مجازاً کیا جاتا ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پر اشیاء کے اسباب مخفی نہیں ہیں ۔ اور تعجب اس چیز پر ہوتا ہے جس کا سبب مخفی ہو، اور اس کے بارے میں علم نہ ہوسکے۔ فوائدِ حدیث : ٭ جانور پر سوار ہوتے وقت اس ذکر کی مشروعیت۔ ٭ ہمیں چاہیے کہ ہر چیز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں خواہ وہ کتنی کم ہی کیوں نہ ہو۔ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر چیز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کیا کرتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافعل خواہ جیسا بھی ہو، اس میں تبدیلی نہیں کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کی مسکراہٹ اور تبسم کو بھی ویسے ہی محفوظ رکھا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہے۔ مسافر کے لیے کیا دعا کی جائے؟ حضرت قزعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا اور فرمایا :آؤ میں تمہیں ایسے الوداع کردوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ضرورت کے لیے روانہ کرتے ہوئے مجھے الوداع کیا تھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
Flag Counter