Maktaba Wahhabi

540 - 548
اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘ ج:…اے بھائی میرا سابقہ من جانب اللہ ایک ایسے معاملے سے پڑ رہا ہے جس طرح کے معاملے سے اس سے پہلے نہیں پڑا تھا اور اللہ کی ایسی مخلوق دیکھ رہا ہوں جیسی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی [1]: ابونعیم کہتے ہیں جب حسن رضی اللہ عنہ کی تکلیف شدید ہوگئی تو وہ بے تاب ہوگئے، ان کے پاس ایک آدمی گئے اور کہا: اے ابومحمد! یہ بے تابی کیسی؟ معاملہ صرف اتنا ہے کہ آپ کی روح جسد خاکی سے الگ ہوگی اور آپ اپنے والدین علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما ، اپنے نانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی نانی خدیجہ رضی اللہ عنہا ، اپنے چچا حمزہ و جعفر رضی اللہ عنہما ، اپنے ماموں قاسم، طیب، طاہر، اپنی خالہ رقیہ، ام کلثوم، زینب رضی اللہ عنہن کے پاس چلے جائیں گے، یہ سن کر آپ کی بے تابی ختم ہوگئی۔[2] دوسری روایت کے مطابق مذکورہ بات کے قائل حسین رضی اللہ عنہ تھے اور یہ کہ حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے بھائی میرا سابقہ من جانب اللہ ایسے معاملے سے پڑ رہا ہے جس طرح کے معاملے سے اس سے پہلے نہیں پڑا تھا، اور اللہ کی ایسی مخلوق دیکھ رہا ہوں جیسی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، تو حسین رضی اللہ عنہ رو پڑے۔[3] ((و فی روایۃ: یا أخی إنی أقدم علی أمر عظیم و ہول لم أقدم علی مثلہ قط)) [4] کتاب وسنت میں انسان کی روح نکلنے سے لے کر جنتیوں کے جنت اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہوجانے کی پوری تفصیل موجود ہے۔ اسی لیے سلف صالحین سوئِ خاتمہ سے ڈرتے تھے، کوئی نہیں جانتا کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوگا، اعمال کا دار و مدار تو خاتموں پر ہوتا ہے، اور مومنین قدم قدم پر سوئِ خاتمہ سے ڈرتے ہیں، انھیں کا اللہ تعالیٰ وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: (وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ) (المومنون:۶۰) ’’اور ان کے دل لرزیدہ رہتے ہیں۔‘‘ نیز سکرات الموت، قبض روح اور انجام کی آگہی سے ڈرتے رہتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:
Flag Counter