Maktaba Wahhabi

539 - 548
کو اسی کے لیے خاص کرنے کی جانب دعوت دیتی ہیں اور یہی ایمان کی روح اور اصل ہے۔[1] جب ہم اللہ کی تمام مخلوقات پر غور کرتے ہیں تو ہر طرح سے انھیں اپنے رب کا محتاج پاتے ہیں، پلک جھپکنے تک وہ اللہ سے مستغنی نہیں ہوسکتیں، خاص طور سے محتاج ہونے کی جن دلیلوں کا مشاہدہ تم اپنی ذات میں کرتے ہو یہ چیز بندے پر واجب کردیتی ہے کہ دینی و دنیاوی نقصانات کو روکنے اور دینی و دنیاوی منافع کو حاصل کرنے میں وہ اللہ کے لیے مکمل خشوع و خضوع کا اظہار کرے، بکثرت اسی سے دعا کرے اور اسی کے سامنے روئے گڑگڑائے، نیز بندے پر یہ بھی واجب کردیتی ہے کہ اپنے رب پر مضبوط بھروسا رکھے، اس کے وعدہ پرمکمل اعتماد کرے، اس کی بھلائی اور احسان کی شدید امید رکھے، اس سے ایمان کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور عبودیت مضبوط ہوتی ہے، اس لیے کہ دعا عبادت کا مغز اور اصل ہے۔ [2] حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی دنیاوی زندگی کے آخری لمحات میں غور و فکر کی عبادت کو اچھی طرح انجام دیا ہے، اور عبادت کے وسیع مفہوم کے عظیم معانی ہمیں سکھلائے ہیں۔ آپ نے اپنی جان کے جانے پر اپنے رب کے پاس ثواب کی توقع کے ساتھ صبر کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی طرح اللہ کے پاس ثواب کی توقع کے معانی کو سمجھتے تھے، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے معاذ! تم قرآن کی تلاوت کیسے کرتے ہو؟ تو انھوں نے جواب دیا: میں رات کے پہلے پہر سو جاتا ہوں پھر اپنی نیند کا ایک حصہ پورا کرکے قیام اللیل کرتا ہوں، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ میسر کرتا ہے تلاوت کرتا ہوں اور اپنے سونے پر بھی عند اللہ ویسے ہی ثواب کی توقع رکھتا ہوں جیسے قیام اللیل پر۔[3] اسی طرح کھانے اور اپنی بیوی سے ہم بستری میں جب کوئی مسلمان اللہ سے ثواب کی توقع کرتا ہے تو من جانب اللہ اسے اجر و ثواب ملتا ہے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنی جان کے جانے پر عند اللہ ثواب کی توقع کرتے ہیں اور مصیبتوں کے وقت احتساب و تفکر کی عبادت انجام دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، وہ لسانِ حال سے گویا یہ آیت تلاوت کر رہے تھے: (قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ) (الانعام:۱۶۲-۱۶۳) ’’آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص
Flag Counter