Maktaba Wahhabi

42 - 131
جب نماز کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی رسیاں کھول ڈالیں اور اُنھیں آزاد کر دیا۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں اپنی توبہ میں یہ امر بھی شامل کرتا ہوں کہ میں اُس قوم کے ہاں آنا جانا چھوڑ دوں جہاں مجھ سے اس گناہ کا ارتکاب ہوا۔ دوسری بات یہ کہ میں اپنے تمام مالسے دستبردار ہو جاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں اتنا کافی ہے کہ تم اپنے مال کا ایک تہائی صدقہ کر دو۔ مؤرخ ابن ہشام کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اُن کے متعلق بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ میرے پاس آ جاتے تو میں اُن کے لیے دعائے مغفرت کر دیتا۔ اب اگر وہ یہ اقدام کر ہی چکے ہیں تو میں اُنھیں آزاد نہیں کرنے کا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ اُن کی توبہ قبول کر لے۔‘‘ [1] جب حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کی قبولیتِ توبہ نازل ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام فرما تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ سحر کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ آپ کو ہنستا مسکراتا رکھے! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: ’’ابو لبابہ کی توبہ قبول ہوئی۔‘‘عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں انھیں یہ خوشخبری دے دوں؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں، بالکل۔ اگر تم چاہو۔‘‘ میں نے کمرے کے دروازے پر آکر آواز دی۔ ابو لبابہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی۔‘‘ اس پر لوگ ان کی رسیاں کھولنے کے لیے ٹوٹ پڑے لیکن انھوں نے کہا کہ نہیں،
Flag Counter