Maktaba Wahhabi

43 - 131
اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے دستِ مبارک سے میری رسیاں کھولیں گے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی رسیاں کھول ڈالیں۔ مؤرخ ابن ہشام نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ چھ راتیں مسجد کے ستون سے بندھے رہے۔ اُن کی اہلیہ ہر نماز کے وقت آتیں اور اُن کی رسیاں کھول ڈالتیں۔ وہ نماز پڑھ کر پھر وہیں بندھ جاتے۔ حسبِ ذیل آیتِ قرآنی ان کی قبولیتِ توبہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی: [1] ﴿ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللّٰهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ ’’اور کچھ دیگر لوگ ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، انھوں نے ملا جلا عمل کیا، ایک اچھا اور دوسرا برا، امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، یقیناً اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ [2] اختتامیہ امانت داری ہمیشہ سے مسلمانوں کے اخلاق و کردار کا حصہ رہی ہے۔ جس کے سُوتے اسلامی عقیدے سے پھوٹتے ہیں۔ یہ صفت آدمی کے سلیم الطبع و راست فکر ہونے اور اُس کے اعلیٰ نصب العین پر عمل پیرا ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ امانت داری، ایمان کے لوازمات میں شامل ہوئی اور خیانت بے ایمانی کی علامت قرار پائی۔ ارشادِ نبوی ہے:
Flag Counter