Maktaba Wahhabi

128 - 131
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو جب بھی کسی مہم پر روانہ کیا، انھیں لشکر کا سپہ سالار ہی بنایا۔ اور اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہتے تو آپ انھیں یقیناً اپنے بعد خلیفہ نامزد کرجاتے۔‘‘ [1] سوال یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں محبت و قرب کا یہ بلند درجہ کیونکر پایا۔ در اصل یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیںعرب کے مرکزی علاقے مکہ کے قریب عکاظ کے میلے میں لایا گیا حالانکہ ان کا قبیلہ عرب کے دور دراز علاقے میں بستا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ ان کی والدہ جن دنوں میکے میں رہنے آئی تھیں اور وہ بھی والدہ کے ہمراہ اپنی ننھیال میں آئے تھے، ان کی ننھیال کے حریف قبیلے نے ان پر دھاوابول دیا۔ اور دور جاہلیت کے عربوں میں یہ انہونی بات نہیں تھی۔ مختلف قبائل ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔ یہ امر ان کے معمولات میں شامل تھا۔ اس حملے کے دوران میں اُس قبیلے نے جہاں ان کا دوسرا مال و متاع لوٹا وہاں وہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھی اڑا لے گئے۔ وہ اس وقت ابھی بچے تھے۔ بعد ازاں وہ انھیں عکاظ کے میلے میں لے آئے۔ عکاظ میں رنگ رنگ کے بازار سجتے تھے۔ ایک بازار غلاموں کی خریدو فروخت کے لیے خاص تھا۔ وہاں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو دیگر غلاموں کے ہمراہ حکیم بن حزام کے ہاتھوں بیچ ڈالا گیا۔ حکیم بن حزام، حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے سگے بھتیجے تھے۔ ایک روز وہ ان کے ہاں تشریف لے گئیں۔ ان بچوں پر نظر پڑی تو وہ انھیں پیارے معلوم ہوئے۔ حکیم بن حزام نے ان کی پسندیدگی بھانپ
Flag Counter