Maktaba Wahhabi

129 - 131
کر عرض کیا کہ پھوپھی جان! ان میں جو غلام آپ چاہیں، لے سکتی ہیں۔ اب کے انھوں نے تمام بچوں کو غور سے دیکھا۔ ایک بچے پر ان کی نگاہِ انتخاب آ کر ٹھہری جس کی رنگت گندمی اور ناک قدرے پست تھی۔ انھیں وہ بچہ ہوشیار اور صاف دل معلوم ہوا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے آئیں۔ اس بچے کا نام زید بن حارثہ تھا۔ وہ قدرے بڑا ہوا تو حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے شوہر نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تجارتی سفر پر جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کی ذہانت سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ بڑا مردم شناس تھا۔ اُنھوں نے اپنی زوجۂ محترمہ سے فرمایا کہ یہ غلام مجھے دے دیجیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے زید کو بخوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زید سے نہایت مشفقانہ برتاؤ کیا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھااور آپ نے اسے آزاد کردیا۔ زید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں رہنے لگا۔ تاہم وہ اپنے ماں باپ کو نہیں بھولا۔ حج کے موسم میں گھومتا پھرتا اوراپنے قبیلے کے افراد کو ڈھونڈتا کہ اگر کوئی مل جائے تو اس کے ماں باپ کو جا کر اس کی خیریت بتلائے۔ آخر ایک موقع پر اسے بنی کلاب کے چند حاجی مل گئے۔ وہ زید کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ زید نے انھیں ایک خط دیا جو اس نے اپنے والدین کے نام لکھا تھا۔ خط میں اس نے والدین کو اپنی خیریت سے مطلع کیا تھا۔ بنی کلاب کے وہ حاجی زید کا خط لے کر اُس کے والد حارثہ کے ہاں پہنچے۔ زید کا خط دیا اور اس کا پتہ اوراس کے آقا کا نام نامی بتایا۔ حارثہ اپنے بھائی کعب کو ہمراہ لیے فی الفور مکہ روانہ ہوا۔ مکہ پہنچ کر وہ دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے عبدالمطلب کے فرزند! اے ہاشم کے بیٹے! اے سردار قوم کے صاحبزادے! آپ حرم کے باسی اور اس کے پڑوسی ہیں۔ آپ قیدیوں کو چھڑاتے اور
Flag Counter