Maktaba Wahhabi

54 - 131
آپ کیا جانیں! شاید اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کو جھانک کر دیکھا ہو اور اُن سے فرما دیا ہو کہ جو چاہے کرو۔ میں نے تو تمھیں معاف کر دیا۔[1] صحیح بخاری شریف کی ایک روایت سے اِس تفسیری روایت کی تائید ہوتی ہے۔ وہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، ابومرثد اور زبیر بن عوام کو روانہ کیا۔ ہم تینوں گھڑ سوار تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’تیزی سے چلتے ہوئے روضۂ خاخ پہنچو۔ وہاں ایک مشرک عورت تمھیں ملے گی۔ اُس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا خط ہے جو اُس نے مشرکین کے نام لکھا ہے۔‘‘ چنانچہ ہم نہایت تیزی سے سفر کرتے ہوئے وہاں پہنچے اور اُس عورت کو جا لیا۔ وہ اونٹ پر سوار تھی اور عین اُسی جگہ پہنچی تھی جس کی نشاندہی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے کی تھی۔ ہم نے کہا: ’’خط؟‘‘ وہ بولی: ’’میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔‘‘ ہم نے اُس کی تلاشی لی۔ ہمیں خط نظر نہ آیا۔ ہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ نہیں کہا۔ یا تو خط نکال یا پھر ہم تجھے ننگا کرتے ہیں۔جب اُس نے دیکھا کہ ہم خط لیے بنا نہیں ٹلیں گے تووہ قدرے جھکی اور اپنے کپڑوں میں سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: ’’حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں بلاشبہ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ نہ میں بدلا نہ میں نے تغیر کیا۔ اُن لوگوں میں دراصل میرا
Flag Counter