Maktaba Wahhabi

44 - 131
((لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہُ)) ’’جس آدمی میں امانت داری نہیں، اُس کا کوئی ایمان نہیں اور جسے عہد و پیمان کا پاس نہیں، اُس کا کوئی دین نہیں۔‘‘ [1] امانت داری نیک لوگوں کی صفت ہے۔انسانی شخصیت جن عناصر سے تشکیل وتکمیل پاتی ہے اُن میں امانت داری ایک اہم عنصر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ﴾ ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ [2] حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے چھباتوں کی ضمانت دو۔ میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: 1۔جب بات کرو تو سچ بولو2۔ وعدہ کرو تو اسے پورا کرو3۔ جب تمھیں امانت سونپی جائے تو اُسے ادا کرو4۔ نظریں نیچی رکھو5۔شرمگاہوں کی حفاظت کرو6۔ہاتھوں کو (ظلم سے) روکے رکھو۔ [3] حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بلند مرتبہ صحابی تھے۔ وہ اُن افراد میں شامل تھے جو پہلے پہل اسلام لائے اور سابقون اَولون کے اعزاز سے نوازے گئے تھے۔ انھیں جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فوراً رجوع اِلَی اللہ کی راہ اپنائی۔ سچی توبہ کی اور پختہ ارادہ کیا کہ آئندہ اُن لوگوں سے کوئی رشتہ ناتا نہیں رکھیں گے جن کے سبب اُن سے یہ غلطی سر زد ہوئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل یہی تھا۔ انھیں جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوتا، اُس کے ازالے کے لیے بے قرار ہو جاتے۔ جب تک اس کا تدارک نہ کر لیتے، چین سے نہ بیٹھتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بابرکت زندگی ہمارے لیے اُسوہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں بھی انھی کا سا طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔
Flag Counter