Maktaba Wahhabi

67 - 131
ابو سفیان کو جب حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام کا پتہ چلا تو اُنھوں نے اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ اپنایا۔ وہ اُن لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل ہونے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اُس وفد کے بھی ایک اہم رکن تھے جو جنابِ ابو طالب سے یہ مطالبہ کرنے گیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے کر دیجیے۔ اس کے بدلے میں قریش کے جس جوانِ رعنا پر آپ انگلی رکھیں گے ہم اُسے خادم بنا کر آپ کی خدمت میں بھیج دیں گے۔ جنابِ ابو طالب نے اُن کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پر زور حمایت کا اعلان کیا تھا۔[1] بنو ہاشم سے ترکِ تعلق کی جو تحریر قریش کے سرکردہ افراد نے لکھی تھی، ابو سفیان بھی اُس کے لکھنے میں شریک تھے۔ آخرکار مشرکینِ مکہ کی ایذاؤں سے تنگ آکر مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ مدینہ میں وہ اطمینان و سکون سے زندگی بسر کرنے لگے۔ ایک روزنبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ ابو سفیان کی قیادت میں قریش کا تجارتی قافلہ شام سے آرہا ہے۔ مشرکینِ مکہ نے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ قریش کا تجارتی قافلہ شام سے آ رہا ہے۔ آپ کا مال بھی یقیناً اس میں شامل ہے، اِس لیے آگے بڑھیے اور اپنا مال اُن سے واپس لیجیے۔ تجارتی قافلہ حجاز کے قریب پہنچا تو ابو سفیان کو پتہ چلا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اصحاب قافلے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ابو سفیان نے ضمضم بن عمرو غفاری کو کچھ روپے دے کر مکہ روانہ کیا اور اُس سے کہا کہ قریش کو بتانا کہ اُن کامال خطرے میں ہے وہ اسے
Flag Counter