Maktaba Wahhabi

68 - 131
بچانے کے لیے فوراً روانہ ہوں۔ ضمضم نہایت تیز رفتاری سے مکہ پہنچا اور سردارانِ قریش کو چیخ چیخ کر بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اصحاب تجارتی قافلے پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں، اِس لیے فوراً روانہ ہو جائیے اور اپنامال بچا لیجیے۔ اُدھر ابو سفیان نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور قریش کا تجارتی قافلہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچ نکلا۔ ابو سفیان نے مشرکینِ مکہ کو پیغام بھیجا کہ تم تجارتی قافلے کو بچانے نکلے تھے۔ تجارتی قافلہ بچ نکلا ہے، اِس لیے مکہ لوٹ جاؤ۔ یہ خبر پا کر مکی لشکر واپس جانے لگا تو ابوجہل نے گھمنڈ میں آ کر کہا کہ ہم تو میدانِ بدر میں اتریں گے۔ تین دن جشن منائیں گے۔ کھائیں پئیں گے۔ طوائفوں کا ناچ گانا دیکھیں گے۔ پھر ہی واپس جائیں گے۔ یوں جب اہلِ عرب کو ہمارے یہاں قیام کا پتہ چلے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے مرعوب ہو جائیں گے۔[1] تا ہم بنو زہرہ کے تین سو افراد اخنس بن شریق کے مشورے پر مکہ لوٹ آئے۔ میدانِ بدر میں مسلمانانِ مدینہ اور مشرکینِ مکہ آمنے سامنے آئے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ مسلمانوں نے شاندار فتح پائی۔ ابوجہل سمیت مشرکین کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ بیسیوں مشرک، مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ جن میں بنتِ رسول حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو العاص بن ربیع بھی شامل تھے۔ قریشِ مکہ نے اپنے قیدیوں کو بازیاب کرانے کے لیے تاوان بھیجے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بھی شوہر کی آزادی کے لیے اپنا وہ ہار بھیج دیا جو اُنھیں ان کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اُن کی شادی کے موقع پر پہنایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہار دیکھا تو آپ کو نہایت رقت آئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’اگر آپ کی یہ رائے ہو کہ ہم اُس کا قیدی چھوڑ دیں اور ہاربھی اُسے لوٹا دیں تو ایسا کر دیجیے۔‘‘
Flag Counter