Maktaba Wahhabi

366 - 548
پریشانیاں ڈال دے گا اور اس کی محتاجی اس کی آنکھوں کے سامنے کردے گا اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی مقدر میں ہے اور جو اپنے دل کا مرکز آخرت کو بنالے گا اور اپنی نیت وہی رکھے گا، اللہ تعالیٰ اسے ہر کام میں اطمینان نصیب فرما دے گا، اس کے دل کو مالدار کردے گا، اور دنیا اس کے قدموں کی ٹھوکروں میں آیا کرے گی۔‘‘ فرمان الٰہی ’’وَ الْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی‘‘ کا مطلب ہے دنیا و آخرت کا بہترین انجام جنت متقیوں کے لیے ہے۔[1] ((وَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰه عنہ قَالَ: اِضْطَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم عَلَی حَصِیْرٍ، فَأَثَّرَہُ فِیْ جَنْبِہِ فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ جَعَلْتُ أَمْسَحُ عَنْہُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَ لَا آذَنْتَنَا فَبَسَطْنَا شَیْئًا یَقِیْکَ مِنْہُ فَتَنَامُ عَلْیِہ فَقَالَ: مَالِیْ وَ لِلدُّنْیَا، مَا أَنَا وَ الدُّنْیَا إِلَّا کَرَاکِبٍ سَارَ فِیْ یَوْمٍ صَائِفٍ فَقَالَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ تَرَکَہَا۔))[2] ’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) ایک چٹائی پر سوئے جس سے آپ کے پہلو میں(چٹائی کے) نشان پڑ گئے، جب آپ بیدار ہوئے تو میں اس پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں کیوں نہیں خبر دی ہم کوئی چیز بچھا دیتے، جو نشان نہ پڑنے دیتی اور آپ سوتے، آپ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کچھ مطلب نہیں، میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی ہے جو کسی گرم دن میں سفر کرتے ہوئے کسی درخت کے نیچے قیلولہ کرتاہے پھر اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے تھے، چنانچہ وہ سب بھی دنیا سے حد درجہ بے رغبت، اور آخرت کا حد درجہ خیال رکھنے والے تھے، ان کی نگاہوں میں دنیا فانی اور آخرت باقی رہنے والی چیز تھی، دنیا سے اتنا ہی لیا جتنا ایک مسافر زاد سفر لیتا ہے، ان کے دل و نگاہ میں صرف آخرت کا تصور رہتا تھا، انھیں معلوم تھا کہ اس چند روزہ دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے اس کے لیے انھوں نے بہت کم مشقت اٹھائی، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق سے ہوا، اللہ کی محبوب چیزیں انھیں پسند اور اس کی مبغوض چیزیں ناپسند تھیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تابعین سے کہا: تمھارے اعمال صحابہ کرام سے زیادہ ہیں، لیکن وہ تم سے بہتر تھے، وہ دنیاسے حد درجہ بے رغبت اور آخرت سے سب سے زیادہ رغبت رکھنے والے تھے، چنانچہ بعض تابعین صحابہ سے زیادہ تہجد گزار، روزے دار اور عبادت گزار تھے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان پر سبقت حاصل ہے، اس
Flag Counter