Maktaba Wahhabi

364 - 548
ہوجاتا ہے۔‘‘ فرمان الٰہی ہے: (ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ) (التکاثر: ۸) ’’پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں تندرستی، امن اور رزق وغیرہ کی جو نعمتیں دی ہیں ان کے شکریہ کے بارے میں تم سے اس دن ضرور سوال ہوگا۔[1] فرمان الٰہی ہے: (وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ) (طہ: ۱۳۱-۱۳۲) ’’اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں، تاکہ انھیں اس میں آزما لیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت) بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے، اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔‘‘ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’ان کفار کی دنیوی زینت اور ان کی ٹیپ ٹاپ کو تو حسرت بھری نگاہوں سے نہ تک، یہ تو ذرا سی دیر کی چیزیں ہیں، یہ صرف ان کی آزمائش کے لیے انھیں یہاں ملی ہیں کہ دیکھیں شکر و تواضع کرتے ہیں یا ناشکری اور تکبر کرتے ہیں، حقیقتاً شکر گزاروں کی کمی ہے، ان کے مالداروں کو جو کچھ ملا ہے اس سے تجھے تو بہت ہی بہتر نعمت ملی ہے۔‘‘ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود قدرت اور دسترس کے دنیا سے نہایت ہی بے رغبت تھے، جو ہاتھ لگتا اسے فی سبیل اللہ تقسیم کردیتے، اور اپنے لیے کچھ بھی محفوظ نہ رکھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ مَا یَفْتَحُ اللّٰہُ لَکُمْ مِنْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا قَالُوْا: وَ مَا زَہْرَۃُ الدُّنْیَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: بَرَکَاتُ الْاَرْضِ۔)) [2]
Flag Counter