حالاں کہ اے انسان تیرا مال (ایک تو وہ ہے) جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا (دوسرا) پہن کر بوسیدہ کردیا یا (تیسرا) صدقہ کرکے (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا۔‘‘ نیز فرمان نبوی ہے: ((یَقُوْلُ الْعَبْدُ: مَالِیْ مَالِیْ، وَ إِنَّ مَالَہُ مِنْ مَالِہِ ثَلَاثٌ: مَا أَکَلَ فَأَفْنَی، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَی، أَوْ تَصَدَّقَ فَأَمْضَی، فَمَا سِوَی ذٰلِکَ فَہُوَ فَذَاہِبٌ وَ تَارِکْہُ لِلنَّاسِ۔))[1] ’’بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال، جب کہ اس کا مال صرف تین ہے، جو کھا کر ختم کردیا، پہن کر بوسیدہ کردیا، صدقہ کرکے (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا۔ اس کے علاوہ سب مال ختم ہونے والا اور (صاحب مال) اس کو لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے۔‘‘ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَتَّبِعُ الْمَیْتَ ثَلَاثَۃٌ فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَ یَبْقَی مَعَہُ وَاحِدٌ، یَتَّبِعُہُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَ عَمَلُہُ فَیَرْجِعُ أَہْلُہُ وَ مَالُہُ وَیَبْقَی عَمَلُہُ۔)) [2] ’’تین چیزیں میت کے پیچھے جاتی ہیں، دو واپس آجاتی ہیں ایک اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہے، اس کے گھر والے، ا س کا مال (غلام، نوکر چاکر) اور اس کا عمل، پھر اس کے گھر والے اور اس کا مال (نوکرچاکر) واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل اس کے ساتھ ہی باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَہْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَ تَبْقٰی مَعَہُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ وَالْأَمَلُ۔)) [3] ’’انسان بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے تب بھی اس کے ساتھ دو چیزیں رہ جاتی ہیں، حرص اور آرزو۔‘‘ احنف بن قیس رحمہ اللہ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا: یہ درہم کس کا ہے؟ اس نے کہا: میرا ہے۔ انھوں نے کہا: وہ تمھارا ہوگا جب تم اسے ثواب کے لیے یا شکر ادا کرنے کے لیے خرچ کردو گے، پھر شاعر کا یہ شعر پڑھ کر سنایا: أنت للمال إذا أمسکتہ فإذا أنفقتہ فالمال لک[4] ’’تم مال کے ہوتے ہو جب تک تم اسے بچاتے رہتے ہو، جب اسے خرچ کردیتے ہو تو وہ مال تمھارا |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |