Maktaba Wahhabi

360 - 548
و لم تزل قلۃ الإنصاف قاطعۃ بین الرجال و لوکانوا ذوی رحم ’’قلت انصاف لوگوں کے تعلقات کو خراب کردیتی ہے چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ بندوں کا انصاف یہ ہے کہ وہ اموال، معاملات، دلائل اور مقالات میں انصاف سے کام لیں، جو لوگوں کو چیزیں کم تول کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور انھیں ہلاکت ونقصان کی دھمکی دی ہے، چنانچہ فرمایا ہے: (وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿٢﴾ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ) (المطففین:ا-۳) ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘ یہ آیت بتا رہی ہے کہ انسان اموال و معاملات میں جس طرح دوسرے لوگوں سے اپنے حقوق کو مکمل طور پر لیتا ہے اسی طرح اس پر ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو بھی ان کے پورے حقوق دے، بلکہ اس آیت کے عموم میں دلائل و مقالات بھی داخل ہیں، جیسے دو مناقشہ و مناظرہ کرنے والے ہوں تو عادتاً ان میں سے ہر ایک جس طرح اپنے دلائل کا حریص ہوتاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے فریق مخالف کے دلائل کو بیان کرے جنھیں وہ نہیں جانتا، نیز فریق مخالف کے دلائل پر بھی غور و فکر کرے، جیسے وہ پنے دلائل پر کرتاہے، ایسے ہی موقع پرانسان کے انصاف اور تعصب، تواضع اور کبر، عقلمندی و بیوقوفی کا پتہ چلتا ہے۔[1] تو حسن رضی اللہ عنہ کا یہ قول کیا ہی عمدہ ہے: (( وَصَاحِبِ النَّاسَ بِمِثْلِ مَا تُحِبُّ أَنْ یُّصَاحِبُوْکَ بِمِثْلِہِ تَکُنْ عَادِلًا۔))[2] ’’لوگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آؤ جیسا تم چاہتے ہوکہ لوگ تمھارے ساتھ پیش آئیں تو عادل بن جاؤ گے۔ ھ: حسن رضی اللہ عنہ کا قول: ((إِنَّہُ کَانَ بَیْنَ أَیْدِیْکُمْ قَوْمٌ یَجْمَعُوْنَ کَثِیْرًا وَ یَبْنُوْنَ مَشِیْدًا وَ یَأْمُلُوْنَ بَعِیْدًا، اَصْبَحَ جَمْعُہُمْ بُوْرًا، وَ عَمَلُہُمْ غَرُوْرًا وَ مَسَاکِنُہُمْ قُبُوْرًا، یَاابْنِ آدَمَ إِنَّکَ لَمْ تَزَلْ فِیْ ہَدْمِ عُمُرِکَ مَنْذُ سَقَطْتَّ مِنْ بَطْنِ أُمِّکَ، فَجُدَّ بِمَا فِیْ یَدِکَ لِمَا بَیْنَ
Flag Counter