Maktaba Wahhabi

358 - 548
بن جاؤ گے۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو عدل و انصاف اپنانے اور ظلم سے بچنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ عدل وانصاف ایک اچھی عادت و خصلت ہے، جو نفس مطمئنہ، وسیع نظر اور دور رس نگاہ کا پتہ دیتی ہے، اس سے اصحابِ حقوق کے حقوق پورے پورے مل جاتے ہیں، عدل پسند حضرات اور اچھی سیاست والے ان حقوق کو دلواتے ہیں۔[1] لوگوں کے عدل و انصاف کے بارے میں ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تم لوگوں کے حقوق ادا کرو، ان سے ایسی چیزوں کا مطالبہ نہ کرو جن کے تم مستحق نہیں ہو، انھیں ان کی طاقت سے زیادہ مکلف نہ کرو، ان کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تم چاہتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ کریں، اور جیسا بدلہ تم پسند کرتے ہو ویسا ہی بدلہ انھیں دو، اور اپنے مفاد میں یا اپنے خلاف جیسا فیصلہ کرتے ہو ویسا ہی فیصلہ ان کے ساتھ کرو۔‘‘[2] عدل و انصاف دو لازم و ملزوم چیزیں ہیں، جس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان فضائل کے حصول اور رذائل سے اجتناب کے ذریعہ سے عالی ہمت اور بری الذمہ ہوجائے۔[3] اللہ تعالیٰ نے ہمیں انصاف کا حکم دیا ہے اور اس بات سے منع کیا ہے کہ کفار کا بغض و عناد ہمیں ان کے خلاف عدم انصاف پر آمادہ کردے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ) (المائدۃ: ۸) ’’اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمھیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کردے، عدل کیا کرو، جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع کردیا کہ کفار کا بغض و عناد مومنوں کو خلاف عدل پر آمادہ کرے تو اہل ایمان میں سے کسی فاسق، بدعتی اور تاویل کرنے والے کے بغض کا معاملہ ہی دوسرا ہوگا، وہ بدرجۂ اولیٰ کسی مومن کو خلاف عدل پر آمادہ نہیں کرے گا۔‘‘[4]
Flag Counter