حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ پڑوسی کو جس طرح کا بھی تعاون درکار ہو دوسرے پڑوسی کو وہ تعاون کرنا چاہیے بشرطیکہ اس میں اس کا نقصان نہ ہو۔ ٭ پڑوسی کی عزت و آبرو کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا، اس کا راز فاش کرکے، اس کی عزت کو برباد کرکے، اس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرکے اس کی خیانت نہ کرنا، اس لیے کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ((أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ، قِیْلَ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: أَنْ تُزَانِی حَلِیْلَۃِ جَارِکَ۔)) [1] ’’تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردو کہ وہ تمھارے ساتھ کھائے گی، پوچھا گیا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرو۔‘‘ بلکہ چاہیے کہ ایک پڑوسی اپنے پڑوسی کی ذات، مال و دولت، عزت و آبرو کی حفاطت کرے، تاکہ اس سے اس کا پڑوسی بے خوف رہے، فرمان نبوی ہے: ((وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، قِیْلَ: وَ مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلَّذِیْ لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ۔)) [2] ’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول کون؟ آپ نے فرمایا: وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘ یعنی اس کی غداری اور خیانت سے،[3] اسی لیے حسن رضی اللہ عنہ اپنے وعظ اور تقریروں میں لوگوں کو پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اور حسن جوار کی تلقین کیا کرتے تھے، آپ نے فرمایا: ((وَأَحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَکَ تَکُنْ مُسْلِمًا۔))[4] ’’اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا پڑوسی بن جا، مسلمان ہوجائے گا۔‘‘ د: ان کا قول: ((وَ صَاحِبِ النَّاسِ بِمِثْلِ مَا تُحِبُّ أَنْ یُّصَاحِبُوْکَ بِمِثْلِہِ تَکُنْ عَادِلًا۔)) ’’لوگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آؤ جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ پیش آئیں، تو عادل |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |