Maktaba Wahhabi

356 - 548
حتی الامکان پڑوسی کے لباس، دوا وغیرہ جیسی ضروریات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ ٭اس کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، جب پڑوسی کے یہاں کوئی ایسا خوشی کا موقع ہو جس میں معصیت نہ ہو، تو اس کے یہاں جاکر اس کی خوشی میں شریک ہونا چاہیے، نیز اس کے یہاں اگرکوئی غمی کا موقع ہو تو اس کے یہاں جاکر اس کی غمی میں شریک ہونا چاہیے، اچھی باتوں سے اس کی غمخواری کرنی چاہیے، اسے ڈھارس بندھانی چاہیے، یہ سب ایک مسلمان کے حقوق ہیں جو اس کے مسلمان بھائی پر عائد ہوتے ہیں، اور پڑوسی ان حقوق کا زیادہ حقدار ہے۔ ٭ جب گھر بیچ کر دوسری جگہ جانا چاہے تو پہلے پڑوسی سے گھر بیچنے کی بات کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ اسے خریدنا چاہے، یہی معاملہ زمین یا کسی بھی غیر منقولہ جائداد کا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کَانَتْ لَہٗ أَرْضٌ فَأَرَادَ بَیْعَہَا فَلْیَعْرِضْہَا عَلَی جَارِہِ۔)) [1] ’’جو اپنی کوئی زمین بیچنا چاہے تو چاہیے کہ وہ اس کے بیچنے کی بات (پہلے) اپنے پڑوسی سے کرے۔‘‘ یہ اس کی دل جوئی کی ایک اچھی شکل ہے، اس سلسلے میں اگر لوگ کوتاہی کریں گے تو باہمی عداوت، نزاع اور جھگڑوں کا دروازہ کھولیں گے۔ ٭ اپنی دیوار میں پڑوسی کو کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے، پڑوسی کو جب اس کی ضرورت ہو تو اس کو اس کی اجازت دے دے، فرمان نبوی ہے: ((لَا یَمْنَعُ جَارٌ جَارَہُ أَنْ یَّغْرِسَ خَشَبَۃً فِیْ جِدَارِہٖ۔)) [2] ’’کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔‘‘ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((مَا لِیْ أَرَاکُمْ عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ وَاللّٰہِ لَأُرْمِیَنَّ بِہَا بَیْنَ أَکْتَافِکُمْ۔)) ’’کیا وجہ ہے کہ (اس فرمان نبوی کے باوجود) میں تمھیں اس حکم سے منہ پھیرتے ہوئے دیکھتا ہوں، اللہ کی قسم! میں اس کو تمھارے کندھوں کے درمیان پھینک کے رہوں گا۔‘‘ یعنی میں اسے تمھارے درمیان ضرور بیان کروں گا چاہے وہ بات تمھیں کتنی ہی بری کیوں نہ لگے اور تمھارے لیے باعث تکلیف ہو۔[3]
Flag Counter