Maktaba Wahhabi

355 - 548
اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ کلمۂ خیر کہے یا پھر خاموش رہے۔‘‘ اسلام میں پڑوسی کی عظیم اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور یوم آخرت پر سچے ایمان کو پڑوسی کے حسن سلوک کے ساتھ جوڑا ہے، اگر ہم اپنے معاشرے میں پڑوسیوں کے ساتھ اس تعلیم نبوی پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہمارے معاشرے باہمی تعاون کی جیتی جاگتی مثال بن جائیں اور لوگ اچھی زندگی بسر کرنے لگیں۔ ٭ پڑوسی کی تکلیف کو برداشت کرنا اور اس پر صبر کرنا، اس لیے کہ حسن جوار صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف دینے سے باز رہا جائے بلکہ اس کی تکلیف کو بھی برداشت کیا جائے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی ایذا رسانی کو برداشت کرتے ہوئے اس پر صبر کرے، اس کا بدلہ احسان سے دے، اس طریقے سے وہ شیطان کا دروازہ بند کردے گا۔ ٭ اسے کھانا کھلا کر بالخصوص جب وہ فقیر ہو اس کی غم خواری کرنا، فرمان نبوی ہے: ((لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یَشْبَعُ وَ جَارُہُ جَائِعٌ جَنْبَہُ۔)) [1] ’’ایسا شخص مومن نہیں جو پیٹ بھر کھائے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔‘‘ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا طَبَخَ أَحَدُکُمْ قِدْرًا فَلْیُکْثِرَ مَرَقَہَا، ثُمَّ لْیُنَاوِلْ جَارَہُ مِنْہَا۔)) [2] ’’جب کوئی سالن تیار کرے تو اس کا شوربہ بڑھا دے، پھر اس میں سے اپنے پڑوسی کو بھی دے۔‘‘ نیز فرمان نبوی ہے: ((یَا نِسَائَ الْمُسْلِمَاتِ لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِہَا وَ لَوْ فِرْسَنَ شَاۃٍ۔)) [3] ’’اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے کوئی ہدیہ کم تر نہ سمجھے اگرچہ وہ (ہدیہ) بکری کا کھر ہی ہو۔‘‘ ہر مسلمان کو چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اعلیٰ تعلیم کا خیال رکھے، اس میں کوتاہی نہ کرے، اس کا پڑوسی پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے مسلم معاشرے کے افراد باہم ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔[4] حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ
Flag Counter