’’پڑوسیوں کے ساتھ اچھا پڑوسی بن جا، مسلمان ہوجائے گا۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو اچھا پڑوسی بننے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر بہت بڑا حق ہے، فرمان الٰہی ہے: (وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ) (النساء: ۳۶) ’’اور ماں باپ سے بھلائی کے ساتھ پیش آؤ اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار پڑوسی سے اور اجنبی پڑوسی سے۔‘‘ نیز فرمان نبوی ہے: ((مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِیْ بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَیُوْرَثُہُ۔)) [1] ’’مجھے جبریل ( علیہ السلام ) پڑوسی کے ساتھ برابر حسن سلوک کی تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت میں(بھی) شریک ٹھہرا دیں گے۔‘‘ اسلام میں پڑوسی کے بہت سارے حقوق و آداب ہیں، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: ٭ کسی بھی قول و عمل سے پڑوسی کو تکلیف نہ دینا، چنانچہ فرمان نبوی ہے: ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہُ۔)) [2] ’’جو اللہ او ریوم آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔‘‘ اس لیے انسان پر واجب ہے کہ وہ قول یا فعل یا اشارے سے پڑوسی کو تکلیف دینے سے بچے، اس کو تکلیف دینا ہر حال میں حرام ہے۔ ٭ ہمیشہ اور ہر ممکنہ صورت میں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، جیسا کہ فرمان نبوی ہے: ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُحْسِنْ إِلٰی جَارِہِ وَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، وَ مَنْ کَانَ یَؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَسْکُتْ)) [3] ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، جو |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |