Maktaba Wahhabi

353 - 548
’’جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: اور میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ سے بحیثیت رب، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت نبی و رسول اور اسلام سے بحیثیت دین راضی ہوگیا، تو اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘ یہ بات قابل غور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اس دعا کو دن میں پانچ مرتبہ پیش آنے والے معاملات سے جوڑ دیا ہے تاکہ یہ دعا اور اس کا مفہوم مسلمان مردوں اور عورتوں کے ذہنوں میں رچ بس جائے۔ نیز فرمان نبوی ہے: ((ذَاقَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم رسولا۔)) [1] ’’جو اللہ سے بحیثیت رب، اسلام سے بحیثیت دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت رسول راضی ہوگیا، اسے ایمان کی چاشنی مل گئی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حدیثوں میں اللہ سے رضامندی کے اس خلق عظیم کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ خلق عظیم گناہوں کی مغفرت کا سبب، اور ایمان کی مٹھاس پانے کا باعث ہے، ایسا اس لیے کہ اس خلق عظیم سے متصف شخص کو یقین ہوتا ہے کہ اسے جو کچھ ملنا ہے مل کر رہے گا، اور جو کچھ نہیں ملنا ہے نہیں ملے گا، اس کے لیے اللہ کی تدبیر، اس کی تدبیر سے بہتر ہے، آرام ہو یا تکلیف بہرصورت وہ اس دنیا میں چین کی زندگی بسر کرتا ہے، آسانی و پریشانی ہر ایک کو منجانب اللہ سمجھتے ہوئے ہر حال میں اس کا شکر ادا کرتا ہے، انسان کے لیے دنیا میں ایسی زندگی سے زیادہ راحت بخش اور کون سی چیز ہوسکتی ہے؟ [2] اسی لیے حسن رضی اللہ عنہ نے اس خلق عظیم پر زبان حال و مقال سے ابھارتے ہوئے فرمایا: ((وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللّٰہُ لَکَ تَکُنْ غَنِیًّا۔))[3] ’’اللہ کی مقدر کردہ چیزوں پر راضی ہوجا، مالدار ہو جائے گا۔‘‘ ج: ان کا قول: ((وَ أَحْسِن جَوَارَ مَنْ جَاوَرَکَ تَکُنْ مُسْلِمًا۔))[4]
Flag Counter