اپنے بندوں پر مہربان ہے، جو کچھ ان کے لیے کرتا ہے، وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے، چاہے بظاہر انھیں شر معلوم ہو۔[1] اس سلسلے میں حسن رضی اللہ عنہ کے نانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ مثال اور بہترین نمونے تھے، چنانچہ آپ نے بیان کردیا ہے کہ نفس، مال، اولاد اور اقارب سے متعلق زندگی میں منجانب اللہ جو پریشانیاں آئیں ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح راضی رہے، اسی طرح مکہ، مدینہ اور طائف میں دعوت الی اللہ کے نتیجے میں اپنی ذات کو لاحق ہونے والی اذیتوں پر مکمل طور سے راضی رہے، اذیتیں اس حد تک پہنچ گئی تھیں کہ آپ کاکام تمام کردینے کی متعدد کوششیں ہوئیں، لیکن کامیاب نہ ہوئیں، آپ نے ان سے صرف ان کے برے ارادے کا اعتراف کرا لیا، پھر انھیں معاف کردیا۔ قلتِ مال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی پوری انسانیت میں کوئی نظیر نہیں ملتی، چنانچہ آپ دعا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا۔)) [2] ’’اے اللہ! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔‘‘ اسی طرح نرینہ اولاد کے انتقال کے بعد ، بڑھاپے میں آپ کے صاحبزادے اور حسن رضی اللہ عنہ کے ماموں ابراہیم رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی، لیکن اٹھارویں مہینے ہی میں انتقال کرجانے پر قضا و قدر سے متعلق آپ کی رضامندی متزلزل نہ ہوئی، بلکہ اس پر اپنی رضامندی کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ((إِنْ الْعَیْنَ تَدْمَعُ و َالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَ لَا نَقُوْلُ إِلَّا بِمَا یَرْضٰي رَبُّنَا، وَ إِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ۔)) [3] ’’بے شک آنکھیں اشک بار ہیں اور دل غمگین ہے، لیکن ہم وہی بات کہیں گے جو ہمارے رب کو راضی کردے اور اے ابراہیم ہم تیری جدائی پر یقینا غمزدہ ہیں۔‘‘ آپ کے اعزہ و اقارب آپ کے اور آپ کی دعوت کے دفاع کی راہ میں آپ کے سامنے پچھاڑے گئے، لیکن آپ اس سے تنگ نہ آئے، بلکہ تاریخ میں آتا ہے کہ آپ کے چچا، اللہ و رسول کے شیر، حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید کردیے گئے،[4] ان کا مثلہ کردیا گیا، آپ نے اپنے لیے سب سے زیادہ دردناک منظر دیکھا، دیکھا کہ چچا کا مثلہ کردیا گیاہے، لیکن آپ نے صرف اتنا کہا: |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |