’’کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پشت کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پھر پیٹ کا تہائی حصہ کھانے کے لیے اور دوسرا تہائی حصہ پانی کے لیے، اور تیسرا تہائی حصہ سانس لینے کے لیے ہو۔‘‘ اس حدیث میں مذکور کم کھانے پینے اور اسراف سے بچنے سے متعلق نبوی طریقے کو اپنانا چاہیے، اس لیے کہ یہ اسراف بڑی خرابی کا باعث ہوتا ہے، خرابی سے مراد معدے کی بیماریاں ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ خرابی مراد ہے جو نفس میں پیدا ہوجاتی ہے جس سے نفس بہت زیادہ کھانے پینے کا عادی ہوجاتا ہے، کھانا پینا اس کے نزدیک غذا اور بدن کی تقویت کے بجائے ایک مستقل مقصدبن جاتا ہے، جس کے حصول میں وہ ہمیشہ لگا رہتا ہے، اس کی پوری تگ و دو اسی کے لیے ہوتی ہے، اس کا پیٹ اگر آسودہ ہو بھی جاتا ہے تو اس کا نفس آسودہ نہیں ہوتا، پیٹ ہی اس کے نزدیک خوش حالی کا معیار ہوتا ہے۔[1] پیٹ کا بندہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف زیادہ کھاتا ہے، اس لیے کہ زیادہ کھانا اس کے مرض کی ظاہری علامت ہے، اس کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ نفس مادہ پرست اور لالچی ہوجاتا ہے، کھانا اس کے نزدیک وسیلۂ غذا کے بجائے ایک مستقل مقصد بن جاتاہے، وہ جانوروں جیسا ہوجاتا ہے جو اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں، اس سلسلے میں فرمان الٰہی ہے: (وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ) (محمد:۱۲) ’’اور جو لوگ کافر ہوئے وہ (دنیا ہی کا) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جانوروں کی طرح کھا رہے ہیں، ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘ نیز فرمان نبوی ہے: ((اَلْکَافِرُ یَأْکُلُ فِیْ سَبْعَۃِ أَمْعَائٍ وَ الْمُؤْمِنُ یَأْکُلُ فِیْ مِعًی وَاحِدٍ۔))[2] ’’کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے، اور مومن ایک آنت میں۔‘‘ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مومنین کا طریقہ کم کھانا ہوتا ہے تاکہ عبادات میں مشغول رہ سکیں، کافر اس کے برخلاف ہوتا ہے اس لیے کہ وہ اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے، انھی کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اس سلسلے میں حرام سے بھی گریز نہیں کرتا، اگر کم کھاتا بھی ہے تو دنیا سے بے رغبتی کے باعث نہیں بلکہ صحت اورجسم کی حفاظت کے لیے، |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |