Maktaba Wahhabi

331 - 548
کھاتا تھا۔‘‘ آپ کے اس ارشاد میں ضرورت سے زائد کھانے کو ترک کرنے کی دعوت دی گئی ہے اس لیے کہ زائد کھانا انواع و اقسام کی پینے کی چیزوں کا متقاضی ہوتا ہے، اور یہ چیزیں معاصی کے ارتکاب اور اطاعتوں کو ترک کرنے کا باعث ہوتی ہیں، او ریہ دونوں باتیں بہت بری ہیں، چنانچہ خوب پیٹ بھر کھانا بہت سارے معاصی کے ارتکاب اور بہت ساری اطاعتوں کے ترک کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ جس نے اپنے آپ کو پیٹ کی برائی سے بچا لیا اس نے اپنے آپ کو بڑی برائی سے بچا لیا، جب انسان خوب پیٹ بھر کھانا کھاتا ہے تبھی اس پر شیطان کا اچھی طرح بس چلتا ہے۔[1] اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیطان کی ان چالوں سے بچنے کے لیے کہا ہے جو حلال پر اکتفا کرنے کے بجائے پیٹ کا بندہ بننے کی دعوت دیتی ہیں، چنانچہ فرمان الٰہی ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ) (البقرۃ: ۱۶۸) ’’اے لوگو! زمین میں موجود پاکیزہ اور حلال چیزیں کھاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، بلاشبہ وہ تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اعتدال کاحکم دیا ہے اس لیے کہ اعتدال پیٹ کی خواہشات کو کنٹرول رکھتا ہے: (وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ) (الاعراف:۳۱) ’’کھاؤ اور پیو، اور اسراف نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ پیٹ کا بندہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ شخص ضرورت سے زیادہ کھائے اور پیئے اور آسودہ ہونے میں مبالغہ اور افراط سے کام لے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا پینا جسم اور نفس کے لیے نقصان دہ ہے، جیسا کہ امام ترمذی نے مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: ((مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وَعَائً شَرَّا مِنْ بَطْنِہِ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أَکْلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامَہِ، وَ ثُلُثٌ لِشَرَابَہِ وَ ثُلُثٌ لِنَفْسَہِ۔)) [2]
Flag Counter