Maktaba Wahhabi

333 - 548
دنیا کا حریص ہونے اور اس کے پیچھے پڑے رہنے کے سبب گویا وہ سات آنتوں میں کھاتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے فلاں پوری دنیا کھاجاتا ہے۔ لیکن مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں دنیا سے متعلق مومن کے زہد اور کافر کے حرص کی مثال بیان کرتے ہیں۔[1] امام نووی نے اس حدیث کا ایک دوسرا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا: ایک قول کے مطابق سات آنتوں سے مراد سات صفتیں ہیں: حرص، ہوس، لمبی امید، لالچ، بری طبیعت، حسد اور موٹاپا۔[2] ابن القیم رحمہ اللہ کا قول ہے: دل کو خراب کرنے والی چیزوں میں سے کھانا ہے، اور اس کھانے کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: …ایسا کھانا جو بذات خود دل کو خراب کردے جیسے حرام چیزیں۔ دوسری قسم:… ایسا کھانا جو اپنی مقدار اور حد سے تجاوز کرنے پر دل کو خراب کردے، جیسے حلال چیز کو حد سے زیادہ کھا لینا، ایسا کھانا دل کو اطاعتوں سے روک دیتا ہے، پیٹ بھرنے والی چیزوں کے حصول اور کوشش میں اسے مشغول کردیتا ہے، حاصل ہوجانے پر ان کو بکثرت کھانے اور ان کے نقصانات سے بچنے کی کوشش میں مشغول کردیتا ہے، خواہشات کو اس پر غالب کردیتا ہے، شیطان کی راہوں کو کشادہ کردیتا ہے، بلاشبہ وہ انسان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے، روزہ اس کی راہوں کو تنگ بلکہ اس کے راستوں کو بند کر دیتا ہے، اور ضرورت سے زیادہ کھانا ان راہوں اور راستوں کو وسیع اور کشادہ کردیتا ہے، چنانچہ جو زیادہ کھاتا ہے، زیادہ پیتا ہے، وہ زیادہ سو کر زیادہ گھاٹا اٹھاتا ہے۔[3] ٭ حسن رضی اللہ عنہ کے اس قول کی شرح: ((وَ کَانَ خَارِجًا مِنْ سُلْطَانِ فَرْجِہِ فَلَا یَسَتخِفُّ لَہُ عَقْلَہُ وَ لَا رَأْیَہُ۔))[4] ’’اپنی شرمگاہ کا غلام نہیں تھا، چنانچہ اس کے پیچھے اپنی عقل و رائے کا دامن نہیں چھوڑتا تھا۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ شرمگاہ کی خواہش پر قابو پانے کی دعوت دے رہے ہیں، اور (بتاتے ہیں کہ) اسے منجانب اللہ مشروع طریقے ہی سے پوری کرنی چاہیے اس لیے کہ اس طریقے سے تجاوز کرنے کے نتائج خطرناک ہیں، جیسے دل کی سختی، ایمان کی کمزوری وغیرہ، شرمگاہ کی خواہش جتنا ہی غالب ہوگی اتنا ہی دل کی سختی، تاریکی اور وحشت بڑھے گی، اس خواہش کی ابتداء محرمات کو دیکھنے سے ہوتی ہے، پھر اختلاط ہوتا ہے، پھر زنا کا معاملہ معمولی معلوم
Flag Counter