Maktaba Wahhabi

269 - 548
اثر تھا، اسی طرح حسن بن علی رضی اللہ عنہما سیرت النبی کا کافی اہتمام کرتے تھے۔ سیرت النبی کا علم اس دور کی ثقافت کا اہم جز تھا، چنانچہ اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں: میرے والد ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے بارے میں بتلاتے تھے، ہم سے ان کا تذکرہ کرتے اور فرماتے: یہ تمھارے آباء و اجداد کے کارنامے ہیں، انھیں فراموش نہ کرو۔[1] حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہمیں قرآن کی سورت کی مانند ہی مغازی کی تعلیم دی جاتی تھی۔[2] رہا معاملہ حدیثِ رسول کا تو آپ کے والد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ روایت کرنے والے تھے، اس کے اسباب یہ ہیں کہ بقیہ خلفاء کے بعد آپ کی وفات ہوئی ہے، آپ سے روایت کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، ایسے تابعین جو علم حاصل کرنے والے اور زیادہ سوال کرنے والے تھے مختلف مقامات میں پھیل چکے تھے،ایسے واقعات رونما ہوچکے تھے جو احادیث کی روایت اور انھیں دوسروں تک پہنچانے کے متقاضی تھے، چنانچہ راویوں نے آپ سے وہ تمام روایتیں پوری امانت و دیانت کے ساتھ نقل کیں جو انھیں ملیں، آپ سے آپ کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ نے بھرپور استفادہ کیا۔ حسن رضی اللہ عنہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ آپ کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سارے واقعات اور احادیث کو آپ نے سیکھ لیا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے ان کو ذکر کیاہے جیسا کہ میں نے پہلے ہی بیان کردیا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ اپنی اولاد کو طلب علم پر ابھارتے چنانچہ آپ نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو بلا کر کہا: اے میرے بیٹو اور بھتیجو! تم آج چھوٹے ہو، عنقریب تم بڑے ہو جاؤ گے، اس لیے علم کو سیکھو، تم میں سے جو یاد کرلینے یا روایت کرنے سے قاصر ہو تو وہ لکھ کر اپنے گھر میں رکھے۔[3] آپ رضی اللہ عنہ قادر الکلام خطیب تھے۔ ایک دن امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: اے حسن کھڑے ہو، اور تقریر کرو، انھوں نے کہا: آپ کو دیکھ کر تقریر کرتے ہوئے میں ڈرتا ہوں، چنانچہ آپ وہاں سے ہٹ کر ایسی جگہ چلے گئے جہاں سے آپ سن سکیں، اور وہ آپ کو نہ دیکھ سکیں، چنانچہ حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد تقریر کی۔[4]اس پر علی رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی:
Flag Counter