Maktaba Wahhabi

268 - 548
ہی معبود، مجھے صرف انھی چیزوں کا علم ہے جنھیں میرے رب نے مجھے بتایا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ کی تنہا و بے نیاز ذات ہے، اس کی الوہیت میں کوئی بھی شریک نہیں، جس معبود کی تمھیں لازمی طور سے عبادت کرنی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا) (الکہف: ۱۱۰) ’’تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے، اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔‘‘ یعنی جسے اللہ کی ملاقات پر ایمان ہو، اور اس کی اطاعت کے عوض ثواب کی امید ہو تو اسے نیک اعمال کے ذریعہ سے اس کی قربت حاصل کرنی اور صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کی عبادت میں کسی بھی دوسری مخلوق کو شریک کرنے سے بچنا چاہیے، چاہے وہ شرکِ جلی ہو جیسے بتوں کی پوجا، یا غیر اللہ کو پکارنا، یا کسی مخلوق کے لیے نذر ماننا یااس بات کا اعتقاد رکھنا کہ کوئی انسان ایسا فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے جو اللہ کے لیے خاص ہے یا اللہ کے شایانِ شان خوف و امید اور محبت جیسی عبادتوں کو غیر اللہ کی جانب پھیر دینا، یا شرکِ خفی ہو جیسے ریاکاری، دکھاوے اور شہرت کے لیے کوئی کام کرنا۔[1] ریا کاری شرک اصغر ہے، جیسا کہ فرمان نبوی ہے: ’’تمھارے سلسلے میں مجھے سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے، لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ریاکاری، روز قیامت جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے رہا ہوگا فرمائے گا: ان کے پاس جاؤ جس کے لیے دنیا میں تم ریاکاری کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو۔[2] آیت کریمہ نے قبولیت اعمال کی دونوں شرطوں کو ذکر کیا ہے: ۱۔ اتباعِ رسول جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا۔ ۲۔ عبادت صرف اللہ کی کی جائے، جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ((وَ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا۔)) ان معانی اور آیات کو حسن رضی اللہ عنہ ہر روز نہایت غور و فکر سے پڑھتے تھے، جن کا آپ کی ذات اور زندگی پر کافی
Flag Counter