۵۔ امام ابوبکر بیہقی اپنی سند سے شقیق بن سلمہ کی حدیث روایت کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا آپ اپنے بعد خلیفہ کی تعیین نہیں کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کی تعیین نہیں کی کہ میں کروں، لیکن اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بھلائی چاہے گا تو انھیں ان کے افضل شخص پر اکٹھا کردے گا، جیسا کہ انھیں ان کے نبی کے بعد ان کے افضل شخص پر اکٹھا کردیا تھا۔[1] یہ واضح دلیل ہے کہ تنصیص کے دعویٰ کو ان رافضیوں نے گھڑلیا تھا جن کے دل علی و اہل بیت سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بغض و عناد سے بھرے ہوئے تھے، وہ اہل بیت کی محبت کا دعویٰ محض اس لیے کرتے تھے کہ اسلام کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرسکیں۔[2] ان قطعی نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ من گھڑت وصیت کی کوئی بنیاد نہیں ہے، اور جس بنیاد پر شیعوں نے اعتماد کیا ہے وہ عبداللہ بن سبا کی گھڑی ہوئی ہے، سب سے پہلے اسی نے وصیت کو جنم دیا، پھر اس کے لیے سندیں اور حدیثیں گھڑی گئیں، پھربہتان تراشی اور غلط طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب انھیں منسوب کردیا گیا، اس سے ان کا مقصد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مطعون کرنا تھا کہ وہ سب فرمان نبوی کی مخالفت کرتے ہیں اور اس بارے میں ان کا اجماع ہے، پھر اس کے ذریعہ سے ان کے نقل کردہ قرآن و حدیث کو مطعون کرنا تھا۔[3] حلی کی تردید کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تنصیص محدثین کی کسی معتمد کتاب میں نہیں ہے، اس کے باطل ہونے پر محدثین کا اجماع ہے۔ ابومحمد بن حزم کہتے ہیں: اس ادعائی تنصیص سے متعلق ہمیں کوئی روایت نہیں ملی ہے سوائے ایک مجہول شخص کی روایت کے جس کی کنیت ابوالحمراء ہے، اللہ کی مخلوق میں وہ کون ہے ہمیں معلوم نہیں۔[4] ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں: ’’یہاں اس بات کا پتہ چل گیا کہ شیعہ جس تنصیص کا دعویٰ کرتے ہیں اسے نہ تو پہلے کسی محدث نے سنا ہے نہ بعد میں، اسی لیے محدثین جس طرح غلط طریقے سے منقول دوسری چیزوں کے جھوٹ کو جانتے ہیں اس منقول چیز کے جھوٹے ہونے کو لازمی طور پر جانتے ہیں۔‘‘[5] |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |