Maktaba Wahhabi

140 - 548
عَلَیْکُمْ۔)) [1] ’’جب تک میں اللہ و رسول کی اطاعت کرتا رہوں تم میری اطاعت کرو، اگر میں اللہ و رسول کا نافرمان ہوجاؤں تو میری اطاعت تم پر ضروری نہیں۔‘‘ ب: امت کو حاکم کے مراقبہ اور محاسبہ کا حق حاصل ہے، آپ کی تقریر میں ہے: ((فَإِنْ أَحْسَنْتُ فَأَعِیْنُوْنِیْ وَإِنْ أَسَاْتُ فَقَوِّمُوْنِيْ۔)) [2] ’’جب تک میں اچھے کام کرتا رہوں میری مدد کرو، اور اگر غلط کرنے لگوں تو مجھے ٹھیک کرو۔‘‘ ج: لوگوں کے مابین عدل و مساوات کے اصول کو اپنانا، آپ کی تقریر میں ہے: ((اَلضَّعِیْفُ فِیْکُمْ قَوِیٌّ عِنْدِيْ حَتّٰی أَرْجِعَ عَلَیْہِ حَقَّہُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ وَالْقَوِيُّ فِیْکُمُ ضَعِیْفٌ حَتّٰی آخُذُ الْحَقَّ مِنْہُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) [3] ’’تم میں ضعیف میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ مشیت الٰہی سے میں اسے اس کا حق واپس دلا سکوں، اور تم میں قوی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ مشیت الٰہی سے میں اس سے حق کو واپس لے سکوں۔‘‘ د: حاکم و محکوم کے مابین تعامل کی بنیاد سچائی ہے، آپ کی تقریر میں ہے: ((اَلصِّدْقُ أَمَانَۃٌ ، وَالْکَذِبُ خِیَانَۃٌ۔)) ’’سچائی امانت ہے، اور جھوٹ خیانت ہے۔‘‘ خلفائے راشدین کے عہد میں سچائی ہی حاکم و محکوم کے مابین تعامل کی بنیاد تھی۔ ھ: جہاد کے التزام کا اعلان اور امت کو اس کے لیے تیار کرنا: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((وَمَا تَرَکَ قَوْمٌ الْجِہَادَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِلَّا خَذَلَہُمُ اللّٰہُ بِالذُّلِّ۔)) [4] ’’جس قوم نے بھی جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کیا اللہ تعالیٰ نے اسے رسوا کردیا۔‘‘ یہ وہی چیز تھی جسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے سمجھا تھا:
Flag Counter