((إِذَا تَبَایَعْتُمْ بِالْعِیْنَۃِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِیْتُمْ بِالزَّرْعِ ، وَتَرَکْتُمُ الْجِہَادَ، سَلَّطَ) اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ذُلًّا لَا یَنْزِعَہُ حَتّٰٰ تَرْجِعُوْا إِلٰی دِیْنِکُمْ۔)) [1] ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے، گایوں بیلوں کی دُمیں تھام لو گے۔ کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کردے گا جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پاسکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔‘‘ و: معاشرے کو زنا کاری سے پاک کرنا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جس قوم میں زنا کاری عام ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر عمومی مصیبت نازل کرتا ہے۔‘‘[2] آپ رضی اللہ عنہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی یاد دہانی کرا تے ہیں: ((لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بہا، إلا فشا فیہم الطاعون و الأوجاع التی لم تکن مضت فی أسلافہم الذین مضوا۔)) [3] ’’جس قوم میں زناکاری علانیہ ہونے لگتی ہے وہ طاعون اور ایسی دوسری بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہے جن کا وجود گزشتہ لوگو ں میں نہیں تھا۔‘‘ یہ وہ بعض مقاصد تھے جنھیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیعت عامہ کے بعد لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمایا تھا۔ اس خطاب میں آپ نے ملکی سیاست کا خاکہ پیش کیا، حاکم کی ذمہ داریوں کو متعین کیا، حاکم و محکوم کے مابین تعلقات کو واضح کیا، اس طرح قوموں کی تربیت اور قیامِ حکومت کے اہم ترین اصول و مبادی کی وضاحت کی۔ ۴۔ حسن رضی اللہ عنہ کے والد کی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت: صحیح سند سے مروی روایتوں سے پتہ چلتاہے کہ علی و زبیر رضی اللہ عنہما نے شروع ہی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت کرلی تھی، میں نے اس کی تفصیلات اپنی کتاب ’’اسمی المطالب في سیرۃ أمیر المومنین علی بن أبی طالب‘‘[4] میں ذکر کی ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رائے میں ان کے والد کے کارنامے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تعاون پر مبنی تھے، چنانچہ |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |