Maktaba Wahhabi

138 - 548
حسن رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عہد نبوی میں انھوں نے پانچوں نمازوں کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا، مسجد نبوی میں آپ کا آنا جانا رہتا تھا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انھوں نے اس بات کا مشاہدہ کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے آگے بڑھایا، انھیں اپنے نانا جان کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی بیعت کا علم تھا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا عقیدہ وہی تھا جو اہل سنت والجماعت کا تھا کہ ان کی خلافت ان کے فضل ، کارناموں اور نماز کی امامت میں دیگر صحابہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے آپ کو آگے بڑھانے کی وجہ سے صحیح اور دستوری تھی۔ نماز کی امامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے آپ کو بڑھانے کا مقصد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھ لیا اس لیے خلافت کے لیے آپ کو بڑھانے اور آپ کی متابعت پر اتفاق کرلیا، کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، اور اللہ تعالیٰ انھیں کسی گمراہی پر متفق کرنے والا نہیں تھا، چنانچہ بہ رضا و رغبت انھوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی، آپ کے مطیع ہوگئے، آپ کی خلافت پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔[1] سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کب انجام پائی؟ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن ہی، لوگوں کو ایک دن بھی بغیر جماعت کے رہنا پسند نہیں تھا۔[2] معتبر اہل علم کی ایک جماعت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلافت کے سب سے زیادہ حقدار تھے[3] جیسے خطیب بغدادی،[4] ابوالحسن اشعری،[5] عبدالملک جوینی[6]، ابوبکر باقلانی۔[7] حسن بن علی رضی اللہ عنہما خلافتِ راشدہ کی بنیادوں کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے اور یہ کہ اس کا قیام شوریٰ اور بیعت پر ہے، خلافت کے وجوب پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اور اس بات پر بھی کہ مسلمانوں پر ایسے خلیفہ کی تعیین فرض ہے جو امت کے حالات کی دیکھ ریکھ کرے، مقررہ سزاؤں کو نافذ کرے، اسلامی دعوت کی نشر و اشاعت بذریعہ جہاد دین وامت کی حفاظت، شریعت کی تنفیذ، لوگوں کے حقوق کی حفاظت، مظالم کی رکاوٹ، اور ہر شخص کی لازمی ضرورتوں کو مہیا کرنے کے لیے کام کرے۔[8]
Flag Counter