Maktaba Wahhabi

138 - 148
ڈاکٹر سید عبداللہ ’’تحریک خلافت و احرار کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے بڑے بڑے خطیب پیدا کئے، مولانا ابوالکلام آزاد، علی برادران (مولانا محمد علی، شوکت علی)ڈاکٹر انصاری، حکیم اجمل خان اور مولانا ظفر علی خان تو خلافت سے قبل ہی روشناس خلق ہو چکے تھے اب ان کے مقابلے میں نسبتاً جوان اور نوجوان خطیب چمکے تھے ان میں سید عبداللہ شاہ بخاری کی خطابت کا تذکرہ تو صدیوں کے پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے اور ن کے ساتھ افضل خطیب مولانا داؤد غزنوی بھی تھے۔ غزنوی صاحب جیسی مکمل خطابت کسی اور کو میسر نہ تھی ایک بلند قامت وجیہہ شخصیت اپنی گونج دار آواز کے ساتھ، فقروں کے زیر و بم میں عالمانہ رعب و داب کے ساتھ جب محو تکلم ہوتے تھے تو شاعرانہ محاورے کے مطابق عنادل بھی ٹھٹھک کر رہ جاتی تھیں ۔ ان کے خاندان کے بزرگوں نے جو کچھ کیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ مولانا داؤد غزنوی نے تحریک خلافت اور اس کے بعد آزادی وطن اور قیام پاکستان تک تمام تحریکوں میں اس روایت کو رکھا۔ بارہا قید ہوئے، نظر بند ہوئے،مصائب برداشت کئے، مگر جس راستے کو اسلام اور مسلمانوں کیلئے مفید خیال کیا اس پر قائم رہے‘‘۔(داؤد غزنوی :49۔48۔) شورش کاشمیری ’’اس حقیقت سے شاید کم لوگ واقف ہوں گے پنجاب کے علماء میں سے وہ پہلے عالم دین تھے جنہوں نے تحریک خلافت کے زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف اپنا پرچم کھولا۔ پہلے شخص تھے جنہوں نے امرتسر میں انگریزی حکومت کے خلاف وعظ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا اور یہ شرف تاریخ نے ان کے سپرد کر دیا وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو منبر و محراب کے جمود سے کھینچ کر جہاد و غزا کے میدان میں اٹھا لائے خود شاہ جی بھی اعتراف فرماتے
Flag Counter