Maktaba Wahhabi

117 - 148
میں مولانا غزنوی مرحوم نے جن عنوانات سے اس فرقہ باطلہ کے عقائد کی وضاحت کی وہ یہ ہیں۔ اسلام اور قادیانیت۔نئی امت کی تشریح۔ دعوی نبوت بدرجہ کمال ۔نبوت کی تشریح۔صاحب شریعت ہونے کا دعوی۔فتوی کفر کی تدریجی رفتار۔ قادیانی’’کلام اللہ ‘‘۔نئی امت کا اعلان ۔قادیانی دین۔مسلمانوں سے قطع تعلقی۔ اسلامی اداروں سے بے تعلقی۔ نماز عید علیحدہ پڑھو۔ حکیم نور الدین کا فتوی۔مسلمانوں کا جنازہ نہ پڑھو۔ مسلمانوں سے نکاح حرام۔حکیم نور الدین کا مسلم مقاطعہ۔اقتصادی مقاطعہ۔مرزائیوں کا اقتصادی اقرار نامہ۔ مرزائیوں کے مسلم ہمدرد۔ اسلامی سلطنت کی تباہی پر خوشی۔ مولانا غزنوی مرحوم نے اس مضمون کااختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ : ’’ ان تمام تفصیلات کے بعد کون سنگدل مسلمان ہے جو مرزائیوں کے رویہ سے متاثر نہ ہو اور خود انہی کی تعلیمات اوران کے طرز عمل کی بناپر اس مطالبہ کی ہمنوائی میں تامل کرے کہ مرزائی جماعت مسلمانوں سے بالکل الگ ایک جماعت ہے اور اپنی ہی تحریروں کی بناپر اسکی مستحق ہے کہ اسے مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیاجائے‘‘۔(داؤد غزنوی :402) مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی اس تحریر کے 38سال بعد حکومت پاکستان نے 1974ء میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دے دیا۔ اگر اس وقت مولانا غزنوی زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ان کے مطالبہ کو 38سال بعد منظور کر لیاگیا۔ جماعت اہل حدیث کی تنظیم: دسمبر1906ء میں مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری کی تجویز پرآل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے متحدہ ہندوستان کی جماعت اہلحدیث کی ایک تنظیم قائم ہوئی اور اس سلسلہ میں آرہ(بہار)میں جماعت اہلحدیث کے علمائے کرام جمع ہوئے اور متفقہ طور پر صرف دو عہدے دار منتخب کئے گئے۔ ایک صدر اور ناظم اعلیٰ۔ صدر، مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری(م22نومبر1918ء)ناظم اعلیٰ مولانا ابوالوفاء
Flag Counter