حق سمجھتے تھے ان سے تمتک برابر قائم رہا۔
مولانا سید داؤد غزنوی نے اسلامی زندگی کے جس مقدس ماحول میں تربیت پائی تھی وہ آج ناپید ہے ان کا علم وفضل،ان کی متانت ثقاہت ان کا تدبر ان کی فقاہت تحریر و تقریر میں یکساں شان دلاویزی،پھر ہر معاملے میں دین کو مقدم رکھنا،اور ہر دینی فرض کو انتہائی اخلاص سے انجام دینا۔ یہ اور ایسے محاسن و فضائل آج ایک شخصیت میں کیونکر جمع ہوسکتے ہیں وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک مجلس ایک انجمن اور ایک جماعت تھے۔
مولاناداؤد غزنوی اس دور کی ایک بہت بڑی شخصیت تھے دور دورتک نظر جاتی ہے مگر ایسا جامع اوصاف وجود کہیں نظر نہیں آتا وہ فطرتاً متوازن اور مستقیم تھے اختلاف رائے کے وقت بھی سب کے ساتھ محبت، بہی خواہی، اور خیر سگالی کا برتاؤ جاری رکھا۔ عداوت کو ان کے دلی خلوص کی منزل میں کبھی بارنہیں ملا۔ وہ اس اسلامی قافلہ کے آخری افراد میں سے تھے جن کی خدمات کے نقوش دور حاضر کی تاریخ کا ایک بیش بہا سرمایا ہیں ‘‘۔ ـ(داؤد غزنوی: 36۔35۔32۔31۔)
مولانا محمد حنیف ندوی
’’اوّل میں جب ان سے ملا تو ان کے بارہ میں میرا یہی تاثر تھا کہ میدان خطابت میں ان کی شعلہ افشانیاں مسلم، لیکن حدود مطالعہ کے اعتبار سے یہ دوسرے سیاسی لیڈروں سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہوں گے۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت انگیز تعجب ہوا کہ قرآن و حدیث اور فقہ میں یہ ان تمام مقامات و وفود سے آگاہ ہیں جو فہم و ادراک کے لئے اچھی خاصی مجتہدانہ کاوشوں کے طالب ہیں۔مجھے ان کی لائبریری کا جائزہ لینے کا بارہا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اہم کتاب ایسی نہیں اور کسی کتاب کا کوئی اہم باب ایسا نہیں جس پر ان کے حواشی و تعلیقات کی چھاپ نہ ہو خصوصیت سے فقہ و تفسیر کے مسائل پر ان کی نظر بہت گہری تھی‘‘۔(داؤد غزنوی:41)
|