کلکتہ میں مولانا سید داؤد غزنوی نے ایک جلسہ عام میں تقریر کی مولانا سید داؤد غزنوی خطابت اور تقریر میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے فصیح البیان خطیب اور مقرر تھے تقریر کے بعد مولانا ظفر علی خان جو اس جلسہ میں شریک تھے مولانا غزنوی کو خوب داد دی اوراس وقت یہ شعر کہے :
قائم ہے ان سے ملت بیضاء کی آبرو
اسلام کاوقار ہے داؤد غزنوی
رجعت پسند کہنے لگے ان کو دیکھ کر
آیا ہے سومنات میں محمود غزنوی
کلکتہ میں اک اور بھی ہیں ان کے ہم لقب
یہ ہست غزنوی ہیں وہ بود غزنوی
کلکتہ میں ان کے ہم لقب سے مراد سر عبدالحلیم غزنوی تھے جو انگریزی حکومت کے حامی اور تحریک آزادی
کے مخالف تھے۔
داؤد غزنوی اور محمود غزنوی
مولانا ابو الکلام آزاد 1940ء میں آل انڈیا نیشنل کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اور 1946ء تک آپ صدر رہے مولانا سید داؤد غزنوی 1945ء میں پنجاب کانگرس کے صدر منتخب ہوئے اوریہ دونوں بڑے زور دار لیڈر تھے۔
اسی دوران ماسٹر تارا سنگھ نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ :
’’محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17حملے کئے اور یہاں کے غیر مسلموں کو مختلف اذیتوں میں مبتلا کر دیاتھا اب اس ملک کی کانگرس کی سیاست پر دو مولانا قابض ہیں ایک نے پورے ہندوستان کی کانگرس پر قبضہ کررکھا ہے اور دوسرے نے پنجاب کی کانگرس پر محمود غزنوی کا تعلق بھی افغانستان سے تھا اور داؤد غزنوی کا تعلق بھی افغانستان سے ہے ان کے آباء و اجداد اسی ملک سے پنجاب آکر آباد ہوئے تھے محمود غزنوی نے پورے ہندوستان کو فتح کر لیاتھا اب داؤد غزنوی نے سیاسی طور پرہندو سکھ سب کو اپنا مطیع بنالیا
|