Maktaba Wahhabi

136 - 148
فصل اوّل مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ’’مولانا سید داؤد غزنوی کی وفات سے نہ صرف خاندان غزنوی اور نہ صرف جماعت اہلحدیث بلکہ اس براعظم (پاکستان وہند)کے دینی،علمی حلقے میں اور علماء کی صف اول میں ایک باوقار کرسی خالی ہوگئی جس کا پر ہونا آسان معلوم نہیں ہوتا مولانا کی دل آویز شخصیت،ان کا فکری توازن اور ان کے وسیع روابط ان کی مجاہدانہ سرگرمیاں،ان کا علمی ذوق، عقائد اور اپنے مسلک میں پختگی اور استقامت کے ساتھ سلف کا مجموعی احترام،خاندانی ذوق اور روحانی چاشنی،یہ سب خصوصیات ہیں جنکے حامل بہت کم نظر آتے ہیں انہوں نے اپنے خاندان و اخلاف کیلئے بالخصوص اورجماعت کیلئے بالعموم ایک ایسی مثال اور ایک ایسا نمونہ چھوڑا ہے جس کی پیروی اگرچہ مشکل ہے لیکن نہایت ضروری ۔اللہ تعالی ان کے جان نشینوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے ‘‘۔(داؤد غزنوی:27) مولانا غلام رسول مہر ''مولانا سید محمد داؤد غزنوی مرحوم و مغفور نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جس کے نزدیک علم و فضل سب سے بڑی دولت،زہدوتقوی سب سے بڑا سرمایہ اور عشق کتاب و سنت گراں بہاتوشہ تھا۔اوراسی فضا میں انہوں نے تربیت پائی اور یہی فضا آخر دم تک ان کے قلب و روح کیلئے بہترین آرام گاہ بنی رہی۔ان کے جد امجد مولاناسید عبداللہ غزنوی نے حق و صداقت کی راہ میں جو مشقتیں اور اذیتیں اٹھائیں ان کاتصور بھی دل پر لرزہ طاری کردیتا ہے وہ تنہا ایک طرف اور پوری مملکت دوسری طرف تھی مگر مولانا سید عبداللہ مرحوم ومغفور کے پائے ثبات و استقلال میں خفیف سی لرزش بھی رونما نہ ہوئی ۔گھر بار چھوڑ دیا وطن سے نکل آئے عزیزوں اور خویشوں سے مفارقت گوارا کرلی۔لیکن جن باتوں کو وہ
Flag Counter