Maktaba Wahhabi

113 - 148
کرام سے مروی ہیں حقیقت میں حضرات شیخین ہی کی روایات ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ،اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان روایات کو مرسلاً روایت کرکے مرفوع حدیث ذکر کردیتے ہیں اور کتب حدیث کے مصنفین ان روایات کی ظاہری صورت کا اعتبار کرکے اپنی اپنی کتابوں میں انہی صحابہ کی روایات درج کر دیتے ہیں ‘‘۔ مولانا ابو الکلام آزاد سے تعلقات مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔وہ ایک بلند پایہ عالم دین،مفسر قرآن،مؤرخ اور سیاستدان تھے۔ ان میں فطری عظمت تھی، وہ فلسفیانہ فکر، مجتہدانہ دماغ،مجاہدانہ جوش عمل رکھنے والے اور باکمال انسان تھے۔ وہ امام او رمجتہد تھے۔ سحر طراز ادیب، جادو بیان خطیب،مقرر اور بلند پایہ مصنف تھے۔ فطرتاً عبقری تھے۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے اور دونوں ایک دوسرے کے علم وفضل کے معترف تھے۔ مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ : ’’مولانا ابو الکلام آزاد سے تعلقات کی بڑی وجہ اشتراک علم و مطالعہ تھا۔ مسائل فقہ میں مولانا ابو الکلام آزاد کی طرح ان کا زیادہ رجحان حنبلیت کی طرف تھا’’(نقوش عظمت رفتہ : 25) علماء کی محبت اور انکا احترام مولانا داؤد غزنوی ان علمائے کرام جو مقام طریقت و سلوک سے آشنا تھے ان کی صحبت میں بیٹھنے میں اپنی سعادت سمجھتے تھے بالخصوص مولانا عبدالقادر رائے پوری،مولانا مفتی محمد حسن امرتسری،مولانااحمد علی لاہوری،مولانا محمد علی مدنی لکھوی،مولانا حافظ محمدگوندلوی،صوفی عبداللہ (ماموں کانجن)اور میاں محمد باقر رحیم اللہ اجمعین۔ مولانا سید داؤد غزنوی کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا،آپ مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے
Flag Counter