Maktaba Wahhabi

142 - 148
مولانا غزنوی کی مسائل دینیہ پر وسیع نظر تھی چاروں ائمہ فقہ کی کتابیں ان کی نظر سے گزری تھیں جب بھی کوئی فتویٰ لکھتے تو اس میں قرآن و حدیث اور آثار صحابہ کے بعد ائمہ فقہ میں سے بھی کسی ایک امام کا قول فتویٰ کی تائید میں درج کرتے تھے۔ علمائے کرام کے بڑے قدردان تھے اس لئے ہر مکتب فکر کے علماء سے ان کے تعلقات تھے اور وہ ان کا احترام کرتے تھے مولانا داؤد غزنوی بڑی خوبیوں کے مالک تھے اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ غالب نے صحیح کہا ہے: مقدور ہوں تو خاک سے پوچھوں اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیئے مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی کا تعلق سوہدرہ سے تھا اور میرے پڑوسی بھی تھے عزیز داری بھی تھی۔ جب کبھی لاہور سے سویدرہ آتے تھے میں ان سے ضرور ملتا۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ مولانا سید داؤد غزنوی خاندان غزنویہ کے گل سر سید تھے ان کے دادا مولانا سید عبداللہ غزنوی اور والد مولانا سید عبدالجبار غزنوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ مولانا سید داؤد غزنوی کی مذہبی و سیاسی خدمات سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ تحریک خلافت، مجلس احرار، جمعیۃ العلماء ہند، کانگرس، اور مسلم لیگ ان کے کارنامے تاریخ کا ایک حصہ ہیں اور جماعت اہلحدیث کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں ان کی خدمات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ مولانا غزنوی وسیع المطالعہ عالم تھے ٹھوس اور قیمتی کتابیں مطالعہ کرتے تھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصانیف کے شیدائی تھے اور ان دونوں ائمہ کرام کی تصانیف کا بالتزام مطالعہ کرتے تھے۔ میں جب بھی ان سے ملا بڑی خندہ پیشانی اور محبت سے ملتے اور سب سے پہلے یہ دریافت کرتے کہ آپ آج کل کیا علمی کام انجام دے رہے ہیں ؟ اور میں جب ان کو کام کی نوعیت کے بارے میں بتاتا تو بہترین مشوروں سے نوازتے اور یہ بھی فرماتے کہ اس کام کے لئے فلاں فلاں کتاب سے رہنمائی
Flag Counter