Maktaba Wahhabi

139 - 148
تھے یہ واقعہ ہے کہ امرتسر کی دینی زندگی میں سیاسی ہلچل ڈالنے کا آغاز انہی کی بدولت ہوا۔ انہیں پنجاب میں علماء کی جنگ آزادی کا پہلا سالار کہا جاتا ہے‘‘۔ (داؤد غزنوی:64) رئیس احمد جعفری ''مولانا داؤد غزنوی نے جس جماعت کو بھی شرف قبولیت بخشا پورے خلوص کے ساتھ اس کی خدمت کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتب فکر میں وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ان کی ذہانت فکر ہر طرح کے اختلافات کے باوجود اصول موضوعہ کی طرح اپنی جگہ مسلم تھی۔ اس زمانے میں کسی شخص کا یہ مقام حاصل کر لینا بہت بڑی بات ہے اور یہ بات اس شخص میں پیدا ہو سکتی ہے جو واقعی بڑا ہو اور کوئی شبہ نہیں آپ ہر اعتبار سے عظیم و جلیل تھے۔ صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے باد صبا یادگار شمع تھی محفل میں پروانے کی خاک‘‘ (داؤد غزنوی:73) محمد اسحق بھٹی ’’مولانا داؤد غزنوی کی عظیم خصوصیت یہ تھی کہ ان کا ظرف بہت وسیع تھا انہتائی وسعت قلب کے مالک تھے۔ ایک خاص مسلک و فقہ کے پابند ہونے کے باوجود تعصبات سے ان کا دل صاف تھا۔مولانا احمد علی سے ان کے تعلقات بہت گہرے تھے ان کی وفات پر فرمایا: آج دین کا ایک ستون گر گیا ہے اور میرے قریب رفقاء میں ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہ ہو سکے گا۔مولانا داؤد کو مفتی محمد حسن امرتسری سے خاص لگاؤ تھا ہفتہ عشرہ بعد نماز عصر کے بعد مفتی صاحب کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان سے مسائل تصوف اور دیگر مسائل پر گفتگو فرماتے۔مولانا غزنوی مولانا سید مودودی کا بہت احترام کرتے اور مجموعی
Flag Counter