دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
ظفر علی خان
ہے جن کے دل میں آزادی کی دھن ان نوجوانوں کو
وطن کے عشق کی پاداش میں سولی پر لٹکانا
بہادینا کسی کی راکھ کو ستلج کی موجوں میں
کسی کی لاش اٹک کے پار خاک و خوں میں تڑپانا
اقبال
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتاہے
مزاتوجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
حفیظ جالندھری
آنے والے کسی طوفان کارونا روکر
ناخدا نے مجھے ساحل پرڈبونا چاہا
غالب
نظر نہ لگے کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
درد
اے درد ؔ کہوں کس سے بتا راز محبت
عالم میں سخن چینی ہے یاطعنہ زنی ہے
حالی
ہوعیب کی خویا کہ ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت
|