Maktaba Wahhabi

316 - 346
دروازے کی طرف سے کشمیری بازار میں داخل ہوا اور دائیں بائیں کتابوں کی دکانیں دیکھتا ہوا رنگ محل میں سنہری مسجد کے قریب جا پہنچا۔وہاں دائیں جانب کی ایک چھوٹی سی دکان میں بیٹھے ایک صاحب کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے۔سیاہ لمبی اور بھری ہوئی ڈاڑھی، صاف گندمی رنگ، آنکھیں موٹی، پورا قد، ابھری ہوئی ناک، کسرتی سا جسم، سر پر ترکی ٹوپی اور 34/35 سال کے جوان۔میں نے السلام علیکم کہا تو کتاب سے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور وعلیکم السلام کہہ کر آنکھیں دوبارہ زیرِ مطالعہ کتاب کے صفحات پر گاڑ لیں۔مجھے احساس ہوا کہ انھوں نے سلام کا جواب خوش دلی سے نہیں دیا، بلکہ سلام کو مطالعہ کتاب میں مخل قرار دیا ہے۔عرض کیا: چند کتابیں لینا چاہتا ہوں۔ کتاب سے نظر اٹھائے اور میری طرف دیکھے بغیر ارشاد ہوا جو کتابیں لینا چاہتے ہو، دیکھ لو۔کتابیں باہر پھٹے پر بھی سجائی ہوئی تھیں اور اندر الماریوں میں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ میں نے اپنی مطلب کی کتابیں منتخب کیں اور قیمت پوچھی، جو قیمت انھوں نے بتائی، اس میں کچھ رعایت کے لیے عرض کیا تو بے رخی(بلکہ بے رحمی)سے جواب دیا: بازار میں بہت دکانیں ہیں، جہاں رعایت سے ملتی ہیں، لے لو۔عرض کیا: طالب علم ہوں، گوجراں والا سے آیا ہوں۔بولے: میں نے کہا ہے، جہاں رعایت سے ملتی ہیں، وہاں سے لے لو۔ ان کے فرمان کے مطابق میں نے کتابوں کی قیمت ادا کی تو اسی وقت ایک صاحب نے میرے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا اور دوسرے نے بائیں کندھے پر۔میں نے دیکھا تو ان میں ایک میرے استاذِ محترم حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی تھے اور دوسرے تھے میرے مشفق مولانا حکیم عبداللہ روڑی والے۔دونوں نے فرمایا: ’’تم کدھر؟‘‘
Flag Counter