Maktaba Wahhabi

292 - 346
صفحہ 79 پر مناظرہ گوجراں والا کا ذکر ہے۔اس کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں وضاحت کی ضرورت ہے۔میں ان دنوں محبوب عالم سکول میں میٹرک کا طالب علم تھا اور حزب اللہ میں شامل اور اس کا سرگرم رکن۔[1] اس مناظرے کی تحریک بریلوی حضرات کی طرف سے ہوئی تھی۔مولانا بشیر حسین جن کو ’’بلبلِ قبرستان‘‘ کا خطاب ہمارے بریلوی بھائیوں نے دے رکھا تھا اور وہ ماشاء اللہ بقول ان کے مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم و مغفور کے شاگرد بھی تھے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم مولانا سے پائی تھی۔وہ اور مولانا محمد عمر اچھروی جامع مسجد اہلِ حدیث(چوک نیائیں)میں آئے۔چند اور صاحبان بھی ان کے ساتھ تھے۔مناظرے کا چیلنج کافی دنوں سے چل رہا تھا۔اب وہ جامع مسجد اہلِ حدیث میں مولانا سلفی کے پاس مناظرے کی شرائط اور وقت طے کرنے کے لیے آئے تھے۔میں اس مجلس میں موجود تھا۔ مناظرے کی شرائط خوش اسلوبی سے طے پا گئیں۔اس ضمن میں عجیب بات یہ ہوئی کہ تمام شرائط جو مولانا سلفی نے پیش کی تھیں، کافی بحث و تمحیص کے بعد ان دونوں(مولانا محمد اچھروی اور مولانا بشیر حسین)نے تسلیم کر لیں اور انھیں تحریر میں لاکر اس پر فریقین کے دستخط کرا لیے گئے۔مولانا محمد عمر اچھروی اور مولانا بشیر حسین کے تشریف لے جانے کے بعد ایک بزرگ نے اس مجلس پر پنجابی میں یہ تبصرہ کیا: ’’مولوی اسماعیل نے تے انھاں مولویاں دا ژور مناظرے توں پہلے ای کرا چھڈیا اے، انھاں ہن مناظرہ کی کرنا اے۔‘‘(یعنی مولانا اسماعیل نے تو مناظرے سے پہلے ہی ان مولویوں کا زور ختم کر دیا ہے، اب یہ کیا مناظرہ کریں گے)۔
Flag Counter