انہوں نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فَإِنِّيْ أُحِبُّ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا فَأَحِبَّھَا۔‘‘ ([1])
[’’پس میں یقینا عائشہ سے محبت کرتا ہوں، سو تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘]
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
’’لَا أَقُوْلُ لِعَائِشَۃَ شَیْئًا یُؤْذِیْھَا أَبَدًا‘‘
[’’میں کبھی بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسی بات نہ کہوں گی، جو ان کے لیے باعثِ اذیّت ہوگی۔‘‘]
قصہ سے معلوم ہونے والی پانچ باتیں:
۱: عالی مقام لوگوں میں بھی بسا اوقات ناخوش گوار صورت پیدا ہوسکتی ہے۔
۲: احتساب کرنے سے پیشتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سببِ احتساب کے متعلق تسلّی کرلینا۔
۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احتساب میں اسلوب عاطفی([2])استعمال فرمانا اور اس مقام پر اس جیسا موثر اور پُر زور کوئی اور اسلوب نہ تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۴: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حق گوئی، کہ اپنی کہی ہوئی بات سے انکار نہ کیا۔
۵: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی فرمانبرداری، کہ قابلِ اعتراض بات کہنے سے ہمیشہ دور رہنے کے عزم کا فوری اعلان۔
|