Maktaba Wahhabi

105 - 154
الْأَسْبَابِ۔‘‘([1]) [’’میں کسی سے عذاب دور کرنے اور کسی کے لیے ثواب حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔اسباب کی دوری کی صورت میں رشتہ داری کی قربت کچھ کام نہ آئے گی۔‘‘] حدیث کی شرح میں امام نووی تحریر کرتے ہیں: ’’مَعْنَاہُ لَا تَتَّکِلُوْا عَلٰی قَرَابَتِيْ فَإِنِّيْ لَا أَقْدِرُ عَلٰی دَفْعِ مَکْرُوْہٍ یُرَیْدُہُ اللّٰہَ تَعَالَی۔‘‘([2]) [’’معنیٰ یہ ہے، کہ میرے ساتھ قرابت پر آس نہ لگائے بیٹھے رہنا، (بلکہ خود عمل کرنا)، کیونکہ یقینا میں اس مصیبت کو دور کرنے پر قادر نہیں، جو اللہ تعالیٰ تمہیں پہنچانے کا ارادہ کریں۔‘‘ گفتگو کا حاصل یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو عظیم باپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آس لگائے بیٹھنے کی بجائے، جہنم کی آگ سے بچاؤ کے لیے خود کوشش کرنے کی تلقین فرمائی۔ (۱۳) اولاد کا احتساب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنی اولاد سے قلبی تعلق اور غیر معمولی پیار کے باوجود، ان کے ہاں قابل اعتراض بات سے چشم پوشی نہ فرماتے تھے، بلکہ پُر زور اور صورتِ حال کے مطابق اسلوب میں اس کا احتساب فرماتے تھے۔ توفیقِ الٰہی سے اس بارے میں ذیل میں سیرتِ
Flag Counter