Maktaba Wahhabi

32 - 277
دل میں یقین ِ کامل کیسے آئے گا ؟ دل میں اس وقت تک یقین ِ کامل نہیں آ سکتا جب تک اس کی بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے۔الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘’جس طرح جسم بیمار ہوتا ہے اسی طرح دل بھی بیمار ہوتا ہے۔’‘ اور دل کی بیماریاں دو قسم کی ہیں: شبہۃ اس سے مراد یہ ہے کہ حق ‘ باطل کے ساتھ خلط ملط ہو جائے اور اسے حق کا راستہ معلوم نہ ہو۔ اِس کا سبب جہالت ہے اور اِس کی بنیاد شخصی آراء کو شریعت پر ترجیح دینا ہے اور اِس کا علاج علم ِ شرعی ہے۔ الشیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ اللہ تعالی کے اس فرمان﴿یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَاوَفِیْ الْآخِرَۃِ﴾[إبراہیم:۲۷]’’جو لوگ ایمان لائے انھیں اللہ قول ثابت(کلمہ طیبہ)سے دنیا میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھے گا’‘ کے بارے میں کہتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو ثابت قدم رکھتا ہے،یعنی ان مومنوں کو جن کے دلوں میں ایمان راسخ ہو چکا ہوتا ہے اور اس کا اثر ان کے اعضاء سے انجام دئیے جانے والے اعمال صالحہ کے ذریعے ظاہر ہوتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیاکی زندگی میں شبہات کے وقت ثابت قدم رکھتا ہے اور انھیں یقین ِ کامل نصیب کرتا ہے۔ اور جب شہوات سامنے آتی ہیں تو انھیں اپنی محبت کو نفس کی محبت پر ترجیح دینے کی توفیق دیتا ہے۔’‘ شہوۃ اس سے مراد یہ ہے کہ دل میں ایسی بیماری پیدا ہو جائے جس کی بناء پر وہ حق تک پہنچنا ہی نہ چاہتا ہو۔یہ پہلی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اُس کا علاج تو علم شرعی سے ہو سکتا ہے،جبکہ اِس کی اصلاح کی امید نہیں ہے۔ ہاں اگر اللہ تعالی چاہے تو ممکن ہے۔ اس بیماری کی بنیاد خواہشاتِ نفس کو عقل پر ترجیح دینا ہے۔اور اس کا مقابلہ اللہ کے دین پر استقامت اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب شبہات پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ایمان والوں کو یقین کامل نصیب کرتا ہے جس سے وہ شبہات کے فتنے سے بچ جاتے ہیں۔
Flag Counter