Maktaba Wahhabi

252 - 277
تووہ مردود ہے۔‘‘[بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۱۷۱۸] ایک اورروایت میں ارشاد فرمایا: (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ)[مسلم:۱۷۱۸] ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ مذکورہ دو اصولوں کو ثابت کرنے کے بعد اب ہم مسئلۂ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آتے ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ متاخرین میں سے بعض اہل علم اسے اچھا عمل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف محقق علماء اسے بدعت تصور کرتے ہیں۔اس طرح یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہوا جن میں اہل علم کے درمیان نزاع پایا جاتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب کسی معاملے میں تمہارے درمیان نزاع پیدا ہوجائے تو تم اسے قرآن مجید اور سنت نبویہ کی طرف لوٹا دو۔لہذا ہم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے اس مسئلہ کو بھی کتاب اللہ اور سنت نبویہ کی طرف لوٹاتے ہیں۔اور جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں اس مسئلہ کیلئے کوئی ایسی بنیاد نہیں ملتی جس پر اعتماد کرتے ہوئے ہم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جائز مان لیں۔اور جب ہم سیرت نبویہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت باسعادت کے دن جشن منانے کا حکم دیا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کسی نے اس دن جشن منایا ہو اور آپ نے اسے درست قرار دیا ہو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تریسٹھ سال تک اس دنیا میں رہے۔اور اس دوران جو حضرات آپ پر ایمان لے آئے وہ آپ سے شدید محبت کرتے تھے اور آپ کی تعظیم،آپ کے احترام اور آپ اور آپ کے لائے ہوئے دین کے دفاع میں کوئی کسر نہ چھوڑتے بلکہ اپنی جانیں تک قربان کرنے سے دریغ نہ کرتے اور ہر چھوٹے بڑے عمل میں آپ کی مکمل اتباع کرتے۔پھر انھوں
Flag Counter