Maktaba Wahhabi

206 - 277
یَکُنْ إِثْمًا،فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ،وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لِنَفْسِہٖ إِلاَّ أَنْ تُنْتَہَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ،یَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِہَا) ترجمہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے سب سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ ہاں اگر وہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے انتہائی کنارہ کشی اختیار فرما لیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا،ہاں البتہ اگر اللہ کی حرمات میں سے کسی ایک کو پامال کیا جاتا تو آپ اللہ کیلئے اس کا انتقام ضرور لیتے۔‘‘[بخاری:۳۵۶۰،مسلم:۲۳۲۷] اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ یا ایسا کیوں نہیں کیا ؟[بخاری:۶۹۱۱،مسلم:۲۳۰۹] رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق اورآپ کی تواضع اور چھوٹے بچوں سے آپ کی محبت کو بیان کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق کے اعتبار سے تمام لوگوں سے بہتر وبرتر تھے۔میرا ایک بھائی تھا جسے ابو عمیر کہا جاتا تھا ور اس کا دودھ چھڑایا جا چکاتھا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے اور اس بچے کو دیکھتے تو فرماتے:(یَا أَبَا عُمَیْر ! مَا فَعَلَ النُّغَیْر ؟)’’اے ابو عمیر ! وہ تمہاری سرخ چڑیا کا کیا حال ہے ؟ ‘ ‘ یہ چڑیا وہ تھی جس کے ساتھ وہ بچہ کھیلاکرتا تھا۔[بخاری:۶۲۰۳،مسلم:۲۱۵۰]
Flag Counter