Maktaba Wahhabi

181 - 277
ہے اور اس کے آخر میں حضرت خضر علیہ السلام کا جو قول ہے کہ﴿وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِیْ﴾تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر اللہ تعالی کی وحی نازل ہوتی تھی۔ویسے بھی حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت تمام لوگوں کیلئے نہیں تھی،صرف بنو اسرائیل کیلئے تھی۔ جبکہ ایک قول کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام بنو اسرائیل میں سے نہیں تھے۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کوئی شخص شریعت ِ محمدیہ کو چھوڑ کر بھی اللہ تعالی کا تقرب حاصل کر سکتا ہے تو وہ کافر ہے۔ یاد رہے کہ ان نواقض میں سے کسی ایک کا مرتکب خواہ سنجیدگی سے اس کا ارتکاب کرے یا مذاقاً کرے،جان بوجھ کر اور قصدا کرے یا خوف کی بناء پر کرے،ہر حال میں وہ کافر ہے۔الا یہ کہ اسے اس پر مجبور کر دیا جائے اور اس کے دل میں ایمان موجود ہو تو وہ کافر نہیں ہو گا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ إِیْمَانِہٖ إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ﴾[النحل:۱۰۶] ترجمہ:’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے،بجز اُس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کے دل میں ایمان برقرار ہو تو جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔’‘
Flag Counter