Maktaba Wahhabi

152 - 277
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ قریش اور ان کے ہمنواؤں نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اس دین ِ حق سے اعراض کر لیا جو آپ لے کر آئے ہیں تو یہ در اصل سابقہ امتوں کے طرز عمل سے ملتا جلتا ہے جو انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اختیار کیا تھا اور اس طرز ِ عمل پر جس چیزنے ان تمام لوگوں کو آمادہ کیا وہ تھی اپنے آباء و اجداد کی تقلید۔ الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘’اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو اس کے بادشاہ اور عیش پرستی کرنے والے لوگوں نے جنہیں دنیا اور مال ودولت نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور جنہوں نے حق قبول کرنے سے تکبر کیا انھوں نے کہا:ہم تو اپنے آباء و اجداد کے دین اور ان کے طور طریقوں پر ہی چلتے رہیں گے - یعنی قریش جو بات کرتے ہیں تقلیدِ آباء واجداد کی یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان سے پہلے لوگ بھی یہی کہتے تھے۔اس سے ان کا مقصود اتباعِ حق نہ تھا بلکہ یہ محض ایک تعصب تھا جس نے انھیں یہ جواب دینے پر آمادہ کیا۔جب ان کے نبی نے انھیں یہ کہا کہ اگر میں تمہارے پاس تمہارے آباء واجداد کے طور طریقوں سے بہتر دین لے آؤں تو کیا تم اس کی پیروی کروگے یا پھر بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کروگے تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حق کی اتباع کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا اور اس نے متنبہ کیا کہ اگر قریش بھی اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے تو ان کا انجام بھی یقینا پہلے لوگوں جیسا ہو گا۔‘‘[تفسیر ابن السعدی:۴/۴۴۲] ان آیات سے جو فوائد اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ یہ ہیں: 1.ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ قریش کا رد عمل کوئی نئی بات نہیں بلکہ
Flag Counter